سیاہ رنگ زیب تن کرنا تاریخ میں طاقت، بغاوت، موت، سیکس کے علاوہ اور بہت سی چیزیں کی بھی نشاندہی کرتا رہا ہے۔ ڈیبورا نکولس لی فیشن کے سب سے لازوال رنگ سیاہ کی گہرائیوں کو دریافت کر رہی ہیں کہ کس طرح کرسٹوبل بیلنسیاگا نے اسے شہرت دوام بخشی۔
معروف فرانسیسی فیشن ڈیزائنر کرسچن ڈائر کا کہنا ہے کہ سیاہ ’رنگوں میں سب سے چھریرا‘ ہے جبکہ ییوز سینٹ لارنٹ کا کہنا ہے ’یہ ڈیزائن اور انداز (کی اہمیت کی) توثیق کرتا ہے۔ یہ رنگ کوکو چینل کی پسند کا رنگ تھا اور کارل لیگر فیلڈ کو شاذ و نادر ہی کسی اور چیز میں ملبوس دیکھا گيا۔ دفاتر میں پاور ڈریسنگ سے لے کر مشاہیر کے جگمگاتے پروگراموں میں نظر آنے والے بیک لیس گاؤن تک سیاہ کا جلوہ کبھی پھیکا نہیں پڑا اور یہ کبھی بھی فیشن سے باہر نہیں ہوا۔
ڈیزائنر کرسٹوبل بیلنسیاگا (1895-1972) کو سیاہ رنگ کی اہمیت کا بہتوں سے بہتر اندازہ تھا۔ وہ امیروں اور شاہی لوگوں (گریس کیلی، جیکی کینیڈی، آڈری ہیپ برن جیسوں) کے ڈیزائنر تھے۔ فیشن کے اعلیٰ ترین لباس کے حلقوں میں لی میتر (ماسٹر) اور ڈیزائنر کے ڈیزائنر کے طور پر سراہے جانے والے ہسپانوی پوشاک ساز کی سیاہ رنگ سے عقیدت نے اسے جنازے کے لباس سے لے اعلیٰ فیشن تک پہنچانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
بیلنسیاگا کی موت کی 50 ویں برسی کے موقع پر مغربی نیدرلینڈ کے شہر دی ہیگ کے میوزیم میں ’بیلنسیاگا ان بلیک‘ کا شو جاری ہے۔ میسن بیلنسیاگا اور پیلیز گیلیریا کی یہ مشترکہ پیشکش اس سے قبل امریکی شہر ٹیکسس اور فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اپنے جلوے بکھیر چکی ہے۔
نمائش میں ڈیزائنر کے 100 سے زیادہ شاندار سیاہ شاہکاروں کے ساتھ ساتھ سیاہ ٹوائل یا مومی کپڑے میں تقریباً سلے ہوئے کئی پروٹو ٹائپز پیش کیے گئے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بیلنسیاگا شروع سے ہی سیاہ رنگ کا سوچتے تھے۔
نمائش کے کیوریٹر میڈلیف ہوے نے بی بی سی کلچر کو بتایا کہ ’انھوں نے کسی بھی دوسرے ڈیزائنر کے مقابلے میں سیاہ رنگ کا زیادہ استعمال کیا ہے اور انھوں نے اسے بہت مختلف انداز میں بھی استعمال کیا ہے۔‘ سیاہ رنگ ان کے جرات مندانہ ڈیزائنوں کی جیومیٹری اور مجسمہ سازی کے معیار کا مظہر تھا۔ ہوہے کہتے ہیں کہ اس سے انھیں جو چیز وہ ڈیزائن کر رہے ہوتے ’اس کی شکل اور اس چیز پر زیادہ توجہ دینے کی آزادی ملتی تھی‘ خواہ وہ لفافے یا غبارے کا ہی ڈیزائن کیوں نہ ہو۔‘
بیلنسیاگا کی اچھی دوست کوکو چینل کو بھی سیاہ رنگ نے اپنے سحر میں مبتلا کر رکھا تھا اور ان کا سنہ 1920 کا چھوٹے سیاہ لباس کا تصور آج بھی مقبول ہے۔ ہوہے بتاتے ہیں کہ ‘وہ اس کو ایک کینوس کی طرح استعمال کرتی تھیں تاکہ یہ آپ کی دن بھر مدد کرے۔ اگر آپ اپنے لوازمات کو تبدیل کرتے ہیں، تو بھی آپ کا چھوٹا سیاہ لباس ہر قسم کے مواقع کے لیے موزوں ہوگا۔ یہ سوچنے کا بالکل مختلف انداز ہے کیونکہ بیلنسیاگا رنگوں کا ڈیزائن کے حصے کے طور پر استعمال کرتے تھے۔’
بیلنسیاگا نے اپنی ہسپانوی وراثت سے یہ چيز اخذ کی تھی جسے ہم ان کے روایتی سیاہ رسمی لباس ’گویا‘ میں دیکھتے ہیں۔ گویا سپین کا روایتی لباس ہے جو لیس سے بنا ہوتا ہے اور اس کے گہرے لمبے سکرٹ ہوتے ہیں۔ ایک ہی رنگ پر قائم رہنے میں انھیں ایک قسم کا مزہ آتا تھا۔ وہ کپڑوں کی مختلف اقسام اور کوالٹی سے فرق پیدا کرتے جس میں سخت لیکن ہلکی ریشمی جالیوں سے لے کر چمکدار ربن، چھو کر محسوس کرنے والے ابھار اور چمکتے دمکتے شیشے کے کام شامل تھے۔ یہ انھوں نے اپنے لیے ڈیزائن کیا تھا۔
پیرس میں بیلنسیاگا آرکائیوز سے تعلق رکھنے والے گیسپرڈ ڈی ماسی نے بی بی سی کلچر کو بتایا: ’جب ان کے سامنے کپڑا آتا تو انھیں یہ پتا ہوتا تھا کہ وہ اس مواد کے ساتھ کس قسم کا سیاہ رنگ لانا چاہتے ہیں۔‘ وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ’آپ کو سیاہ کے اندر سیاہ بھی دیکھنے کو مل سکتا تھا۔ کبھی یہ سرمئی ہوتا، کبھی بھورا اور کبھی یہ نیلا مائل ہوتا۔ کبھی ایسا لگتا ہے جیسے آپ کالے رنگ میں غوطہ لگا رہے ہوں، خاص طور پر مخمل میں۔ کبھی کبھی یہ اتنا گہرا ہوتا کہ جب آپ اندر جاتے ہیں تو آپ کو کچھ نیا ملتا ہے۔‘
بیلنسیاگا کی سیاہ میراث 2015 سے لیبل کے تخلیقی ڈائریکٹر ڈیمنا کے تحت جاری ہے۔ پچھلے سال کے میٹ گالا میں ڈیزائنر نے کم کارڈیشین کے چہرے سے لے کر پاؤں تک سیاہ لباس کا ایسا ڈیزائن تیار کیا کہ ان کی شناخت کے لیے صرف ان کے عالمی شہرت یافتہ جسم کے خدوخال تھے۔ اور یہ موسم بہار کے اس کیٹ واک شو میں بھی جاری رہا جس میں سیاہ پوش ماڈلز چمڑے کے ماسک پہنے نیویارک کی مدھم روشنی والی سٹاک ایکسچینج میں چلتی پھرتی نظر آئیں۔
سیاہ کی طرف واپسی
لیکن بیلنسیاگا سیاہ رنگ سے مسحور ہونے والے تنہا نہیں ہیں۔ Dolce & Gabbana، Versace، اور سیاہ رنگ کے سب سے بڑے مداح یوہجی یاماموٹو نے بھی حالیہ فیشن ویکز میں سیاہ رنگ پر مبنی اپنے کولیکشن پیش کیے۔ کیونکہ سب کچھ کے باوجود سیاہ بکتا ہے۔ یہ کیٹ واک سے لے کر کھونٹی پر ٹنگے کپڑوں تک ہر جگہ پسند کیا جاتا ہے۔ بون فائر اور سپریڈ شرٹ جیسے ٹی شرٹ کے ڈیزائنروں کا کہنا ہے کہ سیاہ رنگ کی فروخت کسی بھی دوسرے رنگ سے بہتر ہے۔ کوئی بھی دوسرا رنگ گرافکس کو اتنا نہیں ابھارتا جتنا کہ سیاہ رنگ۔
‘دی سٹوری آف بلیک‘ کے مصنف اور نقاد جان ہاروی نے وضاحت کی ہے کہ سیاہ کی جانب میلان دراصل بقا کا ایک طریقہ کار ہے۔ جان ہاروے نے بی بی سی کلچر کو بتایا کہ ’آنکھ کے اندر موجود بائپولر خلیے جب روشنی اور اندھیرا دیکھتے ہیں تو برقی سگنل بھیجتے ہیں۔ ’(ابتدائی دور میں) تاریک جگہوں کو دیکھنا اہمیت کا حامل تھا۔ شاید وہ خطرناک تھے، یا شاید محفوظ (اس لیے کہ) وہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں آپ جا کر چھپ سکتے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ سیاہ سفید اور سفید دھاریوں میں سیاہ رنگ ہی کھل کر سامنے آتا ہے جبکہ پس منظر کے رنگ کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’ہماری آنکھیں سیاہ کو مضبوطی سے دیکھتی ہیں۔ یہ ایک خاص معنی میں کوئی رنگ نہیں ہو سکتا ہے، لیکن یہ سب سے مضبوط رنگ بھی ہے۔‘
سیاہ بھی ایک عملی رنگ ہے۔ بہت سے اسلامی ممالک سیاہ کا ماہرانہ استعمال کرتے ہیں۔ اس کی حرارت کو جذب کرنے کی صلاحیت کا استعمال گرم ہوا کو بڑھانے کے لیے کرتے ہیں۔ گہرے رنگوں میں ڈوبے ہوئے ثوب اور عبایا جیسے ملبوسات کی تہہ داریوں کے ذریعے ٹھنڈی ہوا کا ایک کنویکشن کرنٹ بنتا ہے۔
ہاروی کہتے ہیں کہ ’سیاہ رنگ لگژری (آرائش و آسائش کے سامان) کی نشانی رہی ہے جن میں آبنوس کی لکڑی، سیاہ سنگ مرمر اور، قدیم روم میں عمدہ سیاہ اون شامل ہے۔‘ لیکن سیاہ رنگ خوبی اور فرض کی بھی علامت ہے۔ اور 11ویں صدی کے بعد سے پادریوں نے بڑے پیمانے پر اس کا استعمال کیا ہے۔ بعد میں سپین کے فلپ دوم (1527-98) جیسے شاہی خاندانوں نے خود کو چرچ سے وابستہ احترام اور اختیار سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سیاہ رنگ کو اپنایا۔
ہاروی کہتے ہیں کہ ’سیاہ ایک ایسا رنگ بن گیا جس سے یہ پتا چلتا تھا آپ سنجیدہ ہیں۔ اس مطلب تھا کہ کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے یہ پتا چلتا کہ آپ مضبوط ہیں، ممکنہ طور پر طاقتور ہیں۔‘
وہ وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیاہ کے لیے یہ دوہرا پن طویل عرصے سے رہا ہے۔ ’ایک طرف سیاہ ایک کلاس ہے، دولت مندی اور ممتاز ہونے کا اظہار ہے اور دوسری طرف یہ عاجزی، خدمت اور لگن کی علامت ہے۔‘ دونوں کے درمیان فرق کا مواد سے بہت زیادہ تعلق رہا ہے۔ امیروں کے لیے انتہائی سیاہ رنگ بنانا مہنگا کام تھا۔ عام لوگ اپنے آپ کو سیاہ سوتی اور موٹے لینن والا کپڑا پہن کر مطمئن کر لیتے تھے۔ صرف رئیسوں کے لیے سیاہ مخمل اور ساٹن ہوتے تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاہ رنگ متوسط طبقے کے تاجروں اور کاروباری لوگوں میں پھیل گیا، لیکن یہ کافی مدھم اور شدید تھا۔ 19 ویں صدی کے سماجی انفلوئنسر کے مساوی معروف خوش لباس چھیلا بیو برومیل نے یہ دکھایا کہ کس طرح صنعت کاری کی طاقت ابھرتے ہوئے متوسط طبقوں کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ ان کے شوخ اور فٹ سوٹوں میں سیاہ رنگ کی از سر نو تشریح نہ صرف اس گروپ کے بڑھتے ہوئے اثرات کی طرف اشارہ تھی، بلکہ انھوں نے ایک بار پھر سیاہ کو فیشن بنا دیا۔ اور اگرچہ ولیم چہارم، اور بعد میں ملکہ وکٹوریہ کے زیادہ سخت دور حکومت میں فضولیات پر روک لگا دی تھی، اس کے باوجود سیاہ رنگ نے اپنے آپ کو نئے سرے سے ایجاد کیا اور فیشن میں قائم رہا اور یہ نئے دور کی اخلاقیات اور شائستگی کے لیے بالکل موزوں معلوم ہونے لگا۔
بہر حال سیاہ رنگ کی جاذبیت صرف موافقت اور درباری نوازشات کی کہانی نہیں ہے بلکہ اس میں ڈرانے کی طاقت بھی موجود تھی۔ ہاروی کہتے ہیں کہ 16ویں صدی کے روس میں آیوان دی ٹیریبل کی خفیہ پولیس سیاہ لباس میں ملبوس ہوا کرتی تھی اور صدیوں بعد ’فاشسٹ بلیک‘ انتہائی دائیں بازو کی وردی بن گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہٹلر کے ایس ایس والے دہشت پیدا کرنے والے رنگ کے طور پر سیاہ رنگ پہنا کرتے تھے۔ اور یہی کام مسولینی کی بلیک شرٹس (سیاہ قمیضوں) نے کیا تھا۔‘
سیاہ رنگ تخریب کی بھی علامت ہے۔ ہاروے کا کہنا ہے کہ راکرز، پنک اور گوتھ جیسی ذیلی ثقافتوں والوں نے سماجی روایات کے خلاف بغاوت کرنے کے لیے سیاہ رنگ کا استعمال کیا، اس کے ذریعے وہ اپنے ’جوانی کی جوش و خروش‘ کا مظاہرہ کرتے۔ لیکن مقبول ثقافت سیاہ رنگ کو احتجاج سے منسلک کرکے بھی دیکھا جاتا ہے۔ جب اے لسٹرز نے سنہ 2018 میں گولڈن گلوبز میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف تحریک ٹائمز اپ کے لیے اپنی حمایت ظاہر کی تو انھوں نے اس کے لیے سیاہ رنگ کا ہی انتخاب کیا اور سیاہ ملبوسات ہی زیب تن کیے۔
آج کچھ دلہنیں سفید رنگ کے پدرانہ انداز والی پاکیزگی کے اظہار والے شادی کے جوڑے کو مسترد کرتے ہوئے سیاہ رنگ کی طرف جا رہی ہیں جو کہ تجربے اور اعتماد کا عکاس ہے۔ درحقیقت مغربی ثقافت میں سیاہ کی جنسی طاقت بڑے پیمانے پر دیکھی جاتی ہے۔
مشہور شخصیات کی سٹائلسٹ الیکس لانگمور نے بہت سے بڑے ناموں کے ساتھ کام کیا ہے جن میں جان کولنز، جیری ہال، زارا فلپس اور وینی جونز شامل ہیں۔ ان میں سے بہت سے مشاہیر کے لیے انھوں نے سیاہ رنگ کے ملبوسات کا انتخاب کیا۔ وہ بی بی سی کلچر کو بتاتی ہیں: ‘فیشن میں سیاہ ایک ایسا طاقتور رنگ ہے کہ یہ ناقابل یقین حد تک ڈرامائی ہوسکتا ہے اور یہ ایک ہی وقت میں ناقابل یقین حد تک قابل عمل ہوسکتا ہے۔‘ ملکہ الزبتھ دوم کا جنازہ اس پر پورا اترتا ہوا نظر آتا ہے۔ لانگمور کا کہنا ہے کہ ’آپ نے (اس موقعے پر) سیاہ رنگ کا سمندر دیکھا، لیکن ان کے چہرے واقعی نمایاں تھے۔ سیاہ رنگ آپ کو موضوع پر توجہ مرکوز کراتا ہے، بجائے اس کے کہ اس کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔‘
سیاہ کو تضادات کا ماسٹر کہا جا سکتا ہے جہاں یہ ایک ہی وقت میں اعتدال پسند لیکن باغی، ترتیب والا لیکن مبہم، سٹائلش لیکن محفوظ ہو سکتا ہے۔ لانگمور کہتی ہیں کہ سیاہ کے تنوع کو کوئی چھو نہیں سکتا۔ ’میرے بہت سارے کلائنٹ جو کاروبار میں یا عوام کی نظروں میں اعلیٰ عہدوں پر ہیں سیاہ کو پسند کرتے ہیں کیونکہ سیاہ ایک ایسا رنگ ہے جو ہر چیز سے بالاتر ہے۔ آپ اسے ہر موقع پر پہن سکتے ہیں۔۔۔ اس میں کوئی ہنگامہ، کوئی پیچیدگی نہیں ہے، اور یہ ہر چیز کے ساتھ مناسب نظر آتا ہے۔ میرے خیال میں سیاہ رنگ ہمارے آس پاس ٹکا رہے گا۔‘