تحریریں

فاطمی خلافت اور ’دروز‘ فرقے کا جنم: عوام کو رات کو نہ سونے اور کتے مارنے جیسے حکمنامے جاری کرنے والے خلیفہ الحاکم کی داستان

وہ اپنی زندگی کے دوران ظلم و ستم کی وجہ سے مشہور تھے، خاص طور پر سُنی مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں پر۔

لیکن اُن کا انجام اُن کی زندگی ہی کی طرح کچھ کم عجیب نہیں تھا۔ 19 جنوری 1021 کو وہ مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں رات کے وقت پیدل نکلے اور پھر واپس نہیں لوٹے۔ یہ فاطمی خلیفہ الحاکم بامر اللہ کی کہانی ہے جن کا نام المنصور بن العزیز باللہ اور لقب ’الحاکم‘ تھا۔

وہ چھٹے فاطمی خلیفہ تھے جو سنہ 985 میں پیدا ہوئے اور 996 میں صرف گیارہ سال کی عمر میں اقتدار کی مسند پر براجمان ہوئے۔

لیکن یہ خلیفہ کون تھے؟ فاطمی ریاست کا کیا قصہ تھا؟ اور اُن کے دور حکومت میں اُبھرنے والا ’دروز‘ فرقہ کون تھا؟

فاطمی ریاست کا عروج و زوال

فاطمی خلافت ایک سیاسی اور مذہبی خاندان کے طور پر اُبھری جس نے سنہ 909 سے سنہ1171 تک شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے چند علاقوں پر راج کیا اور اس دوران خلافت عباسیہ کے مقابلے میں اسلامی دنیا کی سربراہی کا دعویٰ کیا۔ فاطمی خلافت نے خود کو پیغمبر اسلام کی بیٹی حضرت فاطمہ کے نام سے منسوب کر رکھا تھا۔

فاطمیوں سے پہلے، شمالی افریقہ اور مصر میں اور بھی ایسے حکمران رہ چکے تھے جو بغداد میں عباسی خلفا سے خود کو عملی طور پر خودمختار بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن وہ سُنی تھے اور اسلامی دنیا کے سربراہ کے طور پر خلافت عباسیہ کی علامتی بالادستی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار تھے۔

فاطمی ایک حریف مذہبی تحریک کے سربراہ تھے جو شیعہ اسلام کا اسماعیلی فرقہ تھا۔ انھوں نے اس زمانے میں اسلامی دنیا میں رائج مذہبی اور سیاسی نظام کو ختم کرنے کے لیے اپنی کوششیں وقف کیں اور اپنے پیشروؤں کے برعکس، عباسی خلفا کو تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیا کیوں کہ وہ انھیں ’غاصب‘ قرار دیتے تھے۔

فاطمی خاندان کا دعویٰ تھا کہ پیغمبر اسلام کی بیٹی سے نسبت ہونے کی وجہ سے وہ خلافت کے اصل حقدار تھے اور ان کا مقصد خلافت عباسیہ کو ختم کر کے ایک نئی خلافت قائم کرنا تھا۔ نویں صدی کے دوران، اسماعیلی مبلغین اسلامی سلطنت کے کئی حصوں میں پھیل گئے جو سُنی حکومت اور خلافت عباسیہ کے خلاف بغاوت کے نظریے کی تبلیغ کرتے رہے۔

کئی ناکام بغاوتوں کے بعد، اسماعیلی یمن میں ایک مضبوط بنیاد قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے اور وہاں سے انھوں نے اپنے ایلچی شمالی افریقہ بھیجے، جہاں انھوں نے اپنی سب سے بڑی کامیابی حاصل کی۔ سنہ 909 تک وہ اتنے مضبوط ہو چکے تھے کہ مہدی کے لقب کے ساتھ ایک نئی خلافت، ایک نئی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا۔

اس صدی کے پہلے نصف کے دوران، فاطمی خلفا نے صرف شمالی افریقہ اور سسلی پر حکومت کی، جہاں انھیں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اُن کے رعایا کا بڑا حصہ سنی تھا جو مالکی مکتبہ فکر کی پیروی کرتے تھے۔ بربر قبائل اور پڑوسی مسلم حکمرانوں کے ساتھ بھی چپقلش رہی۔ نیز سسلی، جو فاطمی حکمرانوں کو شمالی افریقہ میں اپنے پیشروؤں سے وراثت میں ملا تھا، میں بازنطینیوں کے خلاف بھی جنگ جاری رہی

ان مشکلات سے نبردآزما ہوتے ہوئے فاطمیوں کی نظر مشرق کی جانب مرکوز رہی جہاں خلافت عباسیہ طاقت کھو رہی تھی تاہم پہلا قدم مصر پر قبضہ تھا جس کے لیے متعدد مہمات روانہ کی گئیں جو ناکام رہیں۔

آخر کار 969 میں مشرق کی طرف پیش قدمی کا پہلا مرحلہ خلیفہ المعز کے دور میں مکمل ہوا، جب فاطمی افواج نے وادی نیل پر حملہ کیا اور سینائی سے ہوتے ہوئے فلسطین اور جنوبی شام میں پیش قدمی کی۔ مصر میں فاطمیوں نے قاہرہ شہر تعمیر کیا جو ان کی سلطنت کا دار الحکومت بنا اور اس کے مرکز میں ایک نئی مسجد اور درسگاہ بنائی گئی جسے فاطمہ الزہرا کے نام پر ’جامعہ الازہر‘ کا نام دیا گیا۔

فاطمی خلافت بیک وقت ایک شاہی اور انقلابی حکومت تھی۔ اندرونی طور پر، خلیفہ خود مختار تھا، ایک وسیع سلطنت پر حکومت کرتا تھا اور اسے فوجی اور سیاسی ذرائع سے وسعت دینے کی کوشش کرتا تھا، جس کا مرکز مصر تھا۔

جب یہ سلطنت اپنے عروج پر پہنچی تو اس میں شمالی افریقہ، سسلی، شام، فلسطین، اردن اور لبنان، یمن اور حجاز کے ساتھ ساتھ مکہ اور مدینہ کے دونوں مقدس شہر بھی شامل تھے۔ لیکن خلیفہ ایک امام بھی تھے اور اسماعیلیوں کے روحانی سربراہ بھی تھے۔

فاطمیوں نے جہاں مصر پر فتح سمیت بہت سی کامیابیاں حاصل کیں وہیں انھیں فلسطین اور شام میں بار بار ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا جہاں مقامی مخالفین کے علاوہ، انھیں بازنطینیوں، ترکوں اور پھر یورپی صلیبیوں کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔

تاہم الحاکم بامر اللہ کے دور میں، فاطمی ریاست فوج کے بربر، ترک، سوڈانی دھڑوں کے درمیان جھگڑوں کی وجہ سے کمزور ہونا شروع ہو گئی تھی اور خلیفہ کے وقار میں اس عہد کے دوران ہی کمی آنا شروع ہو گئی تھی جس کی ایک وجہ اس کی اپنی حکومت اور عجیب رویہ بھی تھا۔

اُن کے جانشین اپنے وزرا اور قائدین کے ہاتھوں میں محض کٹھ پتلی بن گئے اور المستنصر کے طویل دور حکومت میں (1036 سے 1094 تک) مختلف دھڑوں کے درمیان تنازعات نے مصر کو انتشار کے ایک ایسے گرداب میں پھنسایا جو بار بار آنے والے قحط اور طاعون کی وجہ سے شدت اختیار کر گیا۔

اُن کے جانشین اپنے وزرا اور قائدین کے ہاتھوں میں محض کٹھ پتلی بن گئے اور المستنصر کے طویل دور حکومت میں (1036 سے 1094 تک) مختلف دھڑوں کے درمیان تنازعات نے مصر کو انتشار کے ایک ایسے گرداب میں پھنسایا جو بار بار آنے والے قحط اور طاعون کی وجہ سے شدت اختیار کر گیا۔

فاطمی ریاست کا خاتمہ سنہ 1171 میں ہوا جب آخری فاطمی خلیفہ، 14ویں خلیفہ العدید کی وفات ہوئی، اور وزیر مملکت صلاح الدین ایوبی مصر کے حکمران بن گئے۔ یوں فاطمی خلافت باضابطہ طور پر ختم ہوئی جو ایک مذہبی اور سیاسی قوت کے طور پر پہلے ہی مر چکی تھی۔

رات میں کاروبار، کتوں کی ہلاکت اور گدھے کی شاہی سواری

ڈاکٹر فرہاد دفتری نے انسٹیٹیوٹ آف اسماعیلی سٹڈیز میں حکمران خلیفہ الحاکم باامر اللہ پر ایک مقالہ لکھا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ وہ مصر میں پیدا ہونے والے پہلے فاطمی حکمران تھے اور انھیں اپنے بڑے بھائی کی وفات کے بعد 993 میں ولی عہد قرار دیا گیا تھا۔

الحاکم کے دور کے آغاز میں اس کے وزیر برجاوان نے فاطمی ریاست کے حقیقی رہنما کے طور پر خدمات سرانجام دیں تاہم سنہ 1000 میں اُن کو ہٹا کر الحاکم نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس کے بعد الحاکم نے وزرا کے اختیارات میں کمی کی اور بقیہ بیس سال کے دوران پندرہ سے زیادہ وزیر تبدیل ہوئے۔

انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق الحاکم نے جب اقتدار سنبھالا تو ظالمانہ اور عجیب رویہ اپنایا۔

مثال کے طور پر شہر الفسطاط (موجودہ قاہرہ کا ایک ضلع) میں لوٹ مار کا حکم دیا، تمام کتوں کو مروا ڈالا (جن کے بھونکنے سے وہ پریشان تھے)، مختلف قسم کی سبزیوں پر پابندی لگا دی، سیپ کو کھانے، بغیر چھلکے مچھلی پکڑنے حتی کہ گائے کو ذبح کرنا ممنوع قرار پایا۔ شراب کی فروخت، انگور کی کاشت، اونچی آواز میں جشن منانے تک پر پابندی لگی۔

دوسری جانب عورتوں کی نقل و حرکت محدود کرنے کا اعلان کیا گیا کہ کوئی عورت اپنے گھر سے محرم کے بغیر باہر نہ نکلے، سڑک پر یا جنازے کے پیچھے چہرہ نہ دکھائے اور میک اپ نہ کرے۔ اسی طرح نان بائیوں کے پیروں سے آٹا گوندھنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔

الحاکم نے ایک اور عجیب حکم یہ صادر کیا کہ لوگ رات کو نہ سوئیں اور دن میں باہر نہ نکلیں یعنی تجارت اور نقل و حرکت صرف رات میں ممکن تھی۔

الحاکم نے ایک اور عجیب حکم یہ صادر کیا کہ لوگ رات کو نہ سوئیں اور دن میں باہر نہ نکلیں یعنی تجارت اور نقل و حرکت صرف رات میں ممکن تھی۔

ابن کثیر نے اپنی کتاب البدایہ والنہایہ یا تاریخ ابن الکثیر میں لکھا ہے کہ خلیفہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف خود کارروائی کرتا تھا جو ایک گدھے پر سوار ہو کر بازار میں نکلتا اور اگر کسی کو دھوکہ بازی کا مرتکب پاتا تو اپنے ساتھ موجود سیاہ فام غلام مسعود کو حکم دے کر کھلے عام مجرم کو ایسی سزا دلواتا جو بے حیائی کے زمرے میں آتی۔

یہودیوں اور مسیحیوں پر مظالم

الحاکم نے سُنی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں اور مسیحیوں کو بھی مظالم کا نشانہ بنایا۔ ڈاکٹر ایمن فواد سید کی کتاب مصر میں فاطمی ریاست میں لکھتے ہیں کہ الحاکم نے حمام میں داخلے پر پابندی لگائی، چرچوں کو مسمار کیا اور انھیں اسلام قبول کرنے یا پھر رومی سرزمین کی جانب بے دخل ہونے کا حکم دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے لوگوں نے مجبوری میں اسلام قبول کیا۔

سنہ 1004 میں الحاکم نے کاپٹک مسیحیوں کو سیاہ لباس پہننے کا حکم دیا اور ملک بھر میں مسیحی تعطیلات کو منسوخ کرنے کے احکامات جاری کیے گئے، گرجا گھروں اور خانقاہوں کے اوقاف کو بھی روک دیا گیا، کراس ہٹا دیے گئے اور گرجا گھروں میں گھنٹیاں بجانے کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔

سنہ 1011 میں الحاکم نے یہ لازمی قرار دیا کہ کاپٹک مسیحی گلے میں لکڑی کی صلیب لٹکائیں اور یہودیوں کو اپنے گلے میں قرمی (بچھڑے کی شکل میں ایک لکڑی کا لاکٹ) لٹکانے کا پابند کیا گیا۔ مسیحی کاپٹکس اور یہودیوں پر یہ نشان پہنے بغیر حمام میں داخل ہونے کی ممانعت تھی تاکہ انھیں مسلمانوں سے ممتاز کیا جا سکے۔

الحاکم نے کاپٹک زبان کے استعمال کو ختم کرنے کا حکم بھی دیا، اور یہ اعلان کیا گیا کہ جو بھی اسے گلیوں، بازاروں یا گھروں میں بولے گا اس کی زبان کاٹ دی جائے گی، چنانچہ لوگ اس کے ظلم سے ڈر کر عربی زبان سیکھنے لگے

اپنے وقت کا فرعون‘

الحاکم نے یروشلم میں واقع ایک نہایت اہم چرچ کو نذر آتش کرنے کا حکم دیا اور پھر اسے دوبارہ تعمیر کروایا۔

تاہم الحاکم کا ایک اور نہایت عجیب حکم یہ تھا کہ پیغمبر اسلام کے جسد خاکی کو مصر منتقل کیا جائے۔ اس مقصد سے الحاکم نے چند اہکاروں کو خفیہ طور پر مدینہ بھیجا جہاں اس بارے میں علم ہونے پر ان اہلکاروں کو قتل کر دیا گیا۔

شمس الدين الذهبي نے سير أعلام النبلا میں الحاکم کے بارے میں لکھا کہ وہ ایک ’جابر، ضدی شیطان، بہت رنگین، خون چوسنے والا، بڑا چالاک، سخی، عجیب، اپنے زمانے کا فرعون تھا جس نے اپنے کارکنوں کو کتوں پر لعنت بھیجنے اور انھیں مارنے کا حکم دیا۔‘

سائنس اور تعلیم

تاہم الحاکم کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ اکثر قحط کے دوران خود رعایا میں خوراک تقسیم کرتا تھا اور قیمتوں کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ اس کے علاوہ انسائیکلو پیڈیا بریٹینیکا کے مطابق الحاکم نے مساجد تعمیر کروائیں، سکالرز اور شعرا کے وظائف طے کیے۔

تعلیم کے میدان میں الحاکم کا سب سے بڑا کارنامہ دار العلم کی سنہ 1005 میں بنیاد رکھنا تھا، جسے دار الحکمہ بھی کہا جاتا ہے، جس میں قرآن، حدیث، فلسفہ جیسے مضامین سمیت فلکیات کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ یہاں ایک بہت بڑی لائبریری موجود تھی۔

اُن کے دور حکومت میں، تعلیم تک دسترس عوام کے لیے آسان ہوئی اور بہت سے فاطمی مبلغین نے اس بڑے تعلیمی ادارے میں تربیت حاصل کی۔ الحاکم نے اسماعیلی اور فاطمی مبلغین کی تعلیم کو اولین ترجیح دی اور اپنے دور حکومت میں قاہرہ میں کئی علمی مجالس قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ایک مسجد کی تعمیر بھی مکمل کرائی جو اب بھی ان کے نام سے منسوب ہے۔

الحاکم نے ان تعلیمی سرگرمیوں کے لیے مالی معاونت فراہم کی اور اسماعیلی عقائد کے لیے وقف کردہ مجالس میں خود الحاکم بھی شریک ہوتے۔ الحاکم کے دور حکومت میں عراق اور فارس میں منظم طریقے سے فاطمی نظریے کی تبلیغ کی گئی اور عراق میں عباسی اثر و رسوخ کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔

خلافت عباسیہ کی پریشانی

حمید الدین الکرمانی اس دور کے سب سے ممتاز فاطمی مبلغ تھے جنھوں نے مشرقی صوبوں میں کام کیا اور ان کی محنت کے نتائج جلد ہی عراق میں نظر آئے جہاں موصل اور کوفہ سمیت متعدد علاقوں کے گورنر قرواس ابن المقلد نے الحاکم کی خلافت کو تسلیم کر لیا۔

اسی طرح بنو اسد کے سربراہ علی ابن الاسدی نے بھی الحاکم کی اطاعت تسلیم کی۔ عباسی خلیفہ القادر باللہ (ابو العباس احمد بن اسحاق) اس پیشرفت سے پریشان تھے۔

اس لیے انھوں نے اپنی سلطنت میں اسماعیلی نظریات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اقدامات کیے اور سنہ 1011 میں متعدد سنی اور بارہ شیعہ علما کو جمع کیا اور انھیں ایک تحریری دستاویز کے ذریعے یہ قرار دینے کا حکم دیا گیا کہ الحاکم سمیت فاطمی خلافت کے آباواجداد کا شجرہ نسب حقیقت میں پیغمبر اسلام کی بیٹی حضرت فاطمہ سے نہیں ملتا تھا۔

بغداد اعلامیے کا اعلان خلافت عباسیہ کے زیرتسلط تمام علاقوں میں جمعہ کے خطبوں میں کیا گیا۔

الحاکم کی پراسرار گمشدگی اور خون آلود کپڑوں کی بازیابی

انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق سنہ 1017 میں الحاکم نے چند ایسے اسماعیلی مبلغین کی تعلیمات کی حوصلہ افزائی کرنا شروع کر دی جو یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ فاطمی خلیفہ، یعنی الحاکم، خدا کا اوتار ہیں۔

انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق ’دروز‘ مذہب ان مبلغین کی تعلیمات سے متاثر ہو کر ہی وجود میں آیا تھا۔

ڈاکٹر فرہاد دفتری نے الحاکم پر تحریرشدہ اپنے مقالے میں کہا ہے کہ الحاکم کے دور میں ہی دروز مذہب سامنے آیا۔

ان کے مطابق اس دور میں فارس اور وسطی ایشیا سے بہت سے مبلغین قاہرہ آئے جن میں دو نام اہم ہیں۔ یہ حمزہ بن علی اور محمد الدرزی تھے جنھوں نے نئے عقائد کو پھیلایا اور یوں ایک نئی تحریک کا قیام ہوا جسے بعد میں محمد الدرزی کے نام پر دروز کا نام دیا گیا۔

اسی وقت سنہ 1021 میں، الحاکم ایک رات سیر کے لیے بغیر کسی محافظ کے قاہرہ کے باہر المقطم پہاڑیوں پر نکلے لیکن وہ واپس نہیں آئے۔ یہ عقدہ آج تک نہیں کھلا کہ الحاکم کے ساتھ کیا ہوا۔ تاہم اس حوالے سے متضاد روایات موجود ہیں۔

ایک نظریہ یہ ہے کہ الحاکم کو ان کی بڑی بہن، ست الملک کے حکم پر قتل کر دیا گیا تھا۔ جب کہ دوسروں کا خیال ہے کہ وہ حمزہ بن علی اور تین دیگر ممتاز مبلغین کے ساتھ کہیں چھپ گئے۔ ان کے بعد بہاؤ الدین اس تحریک کے نئے سربراہ بن گئے۔

36 سالہ خلیفہ اور امام کو بہت تلاش کیا گیا لیکن صرف ان کا گدھا اور خون آلود کپڑے ملے۔ الحاکم کی گمشدگی کا معمہ کبھی حل نہ ہو سکا۔ دروز فرقے کا ماننا ہے کہ وہ ایک دن دنیا میں انصاف قائم کرنے کے لیے دوبارہ ظاہر ہوں گے۔

سیاسی طور پر دیکھا جائے تو الحاکم نے خلیفہ کی طاقت کو بڑھایا جس کی وجہ سے اشرافیہ اور وزرا عدم اطمینان کا شکار ہوئے۔ دوسری جانب الحاکم پر مخالفین کے خلاف سخت احکامات جاری کرنے کا الزام بھی لگتا ہے۔

دوسری جانب الحاکم نے فاطمی ریاست کے انتظامی اور عدالتی نظام میں تبدیلیاں متعارف کروائیں، اور بازاروں کو کنٹرول کرنے اور مالیاتی امور کو منظم کرنے کی کوشش کی۔

سماجی پہلو کے حوالے سے، الحاکم نے ایسے قوانین جاری کیے جنھوں نے تنازعات کو جنم دیا، جیسا کہ مولوکھیا کھانے کی ممانعت اور خواتین کے گھر سے باہر نکلنے سے منع کرنا، جس سے بعض اوقات عوام میں عدم اطمینان پیدا ہوا۔

ثقافتی نقطہ نظر سے، الحاکم کا دور خوشحال تھا، کیونکہ قاہرہ میں لائبریریاں اور مساجد تعمیر کی گئی تھیں، جو کہ اس دور کی گواہی بھی دیتی ہیں۔ قاہرہ شہر کی توسیع ہوئی اور تعلیمی اداروں کی تعمیر ہوئی۔

دروز فرقہ: صلاح الدین ایوبی سے سلطنت عثمانیہ تک

الحاکم کے بعد اس کا بیٹا الظاہر خلیفہ اور امام بنا لیکن وہ نابالغ تھا۔ یوں الظاہر کی خالہ اور الحاکم کی بہن ست الملک حقیقی حکمران بن گئیں جن کو دروز فرقہ پسند نہ تھا۔ انھیں دور دراز پہاڑی علاقوں، خاص طور پر لبنان اور شام کی جانب فرار ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔

سنہ 2013 میں ڈین سیوری راز نے بی بی سی پر اس فرقے کے بارے میں ایک مضمون لکھا جس میں انھوں نے کہا کہ دروز مصر میں دسویں صدی میں، فاطمی خلیفہ الحاکم کے دور میں نمودار ہوا، اور ان کا پیروکار بن کر اہل تشیع سے الگ ہو گیا۔ لیکن اس فرقے کے پیروکاروں کو لبنان، شام اور دیگر علاقوں کی جانب فرار ہونا پڑا۔

دروز فرقے میں اسلامی، ہندو اور یونانی فلسفوں کا امتزاج موجود ہے اور یہ دوبارہ جنم پر یقین رکھتے ہیں تاہم یہودیت، مسیحیت اور اسلام کے پیغمبروں پر بھی اعتقاد رکھتے ہیں۔

ڈین سیوری راز کے مطابق، دروز کا اپنا جھنڈہ ہے، جسے دروز ستارہ کہا جاتا ہے، جس کے پانچ مختلف رنگ ہیں اور ہر رنگ ایک پیغمبر کی نمائندگی کرتا ہے۔

دروز خدا کی وحدانیت پر بھی یقین رکھتے ہیں جو کائنات کا مالک ہے۔ تاہم اس عقیدے کے مطابق خدا کی وضاحت انسانی ذہن کے بس کی بات نہیں۔

دروز کی تاریخ تقریباً ایک ہزار سال پرانی ہے اور ایک وقت میں انھوں نے، سنہ 1187 میں، حطین کی جنگ میں صلاح الدین ایوبی کے جھنڈے تلے جنگ بھی لڑی اور فتح کے بعد زنگی اور ایوبی بادشاہوں کا اعتماد حاصل کیا۔ بعد میں انھوں نے عین جالوت کی جنگ میں تاتاریوں اور منگولوں کے خلاف مملوکوں کا ساتھ دیا۔

جدید مصر کے بانی محمد علی نے جب سلسطنت عثمانیہ سے بغاوت کی تو دروز ان کے خلاف لڑے لیکن پھر ایک وقت آیا جب دروز بھی سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت پر اُتر آئے۔

اس دوران دروز فرقہ کے پیروکاروں نے مکہ کے شریف حسین کے ساتھ اپنی وفاداری کا اعلان کیا اور سینکڑوں عرب فوج میں شامل ہو گئے۔ یاد رہے کہ مکہ کے شریف حسین نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف برطانیہ کے ساتھ مل کر بغاوت کی تھی اور پہلی عالمی جنگ میں سلطنت عثمانیہ کو حجاز میں علاقوں کا کنٹرول کھونا پڑا تھا۔

جب اسرائیل کی ریاست قائم ہوئی تو دروز میں سے کچھ خطے میں رہ گئے، جب کہ کچھ لبنان اور شام چلے گئے۔ کچھ ذرائع کا ماننا ہے کہ دروز نے 1948 میں اسرائیل کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کر لیا تھا اور اسرائیلی فوج میں لازمی خدمات کے بدلے میں مراعات حاصل کیں۔

اسرائیلی وزارت خارجہ کے مطابق اسرائیل میں دروز کی تعداد تقریباً 104,000 بتائی گئی ہے، جس میں گولان کی پہاڑیوں پر بسنے والے 18000 دروز کی آبادی شامل ہے۔ یہ اسرائیل کی آبادی کا 1.6 فیصد بنتا ہے۔ یاد رہے کہ گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل نے 1967 میں قبضہ کر لیا تھا۔ دوسری جانب لبنان میں بھی دروز کا اہم سیاسی کردار ہے۔

دروز کی اپنی خصوصی عدالتیں ہیں اور ان کی زبان کی طرح ان کی ثقافت بھی عربی ہے۔

یہ بھی پڑھیں