تحریریں

صحرا کا موتی‘: عرب فن تعمیر کا شاہکار شہر، جہاں ایئر کنڈیشنر کے بغیر بھی عمارات ٹھنڈی رہتی ہیں

پہاڑوں، ریت کے طوفانوں، اونٹوں اور گاڑیوں کے زنگ آلود ڈھانچوں کے درمیان کئی گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد آخر کار ہم غدامس پہنچ گئے۔

یہ لیبیا کے دارالحکومت طرابلس سے چھ سو کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع شہر ہے جو کم از کم دو ہزار سال سے موجود ہے تاہم اس شہر کو اس کی حالیہ شکل ساتویں صدی میں عرب مسلمانوں نے دی جس کے بعد یہ پھلتا پھولتا رہا۔

اس شہر کی خصوصیت اس کی تعمیر کا وہ انداز ہے جو اسے افریقہ کے شمالی صحرا کے گرم موسم اور طوفانوں سے بچاتا ہے۔

اسے یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دیا ہے اور یہ شہر ’صحرا کے موتی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں آ کر معلوم ہوتا ہے کہ ماحولیاتی تعمیر کیا ہوتی ہے۔

چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تک کے درجہ حرارت میں اپنے گائیڈ منشور کے ہمراہ میں شہر کی آڑھی ترچھی تاریک گلیوں کی بھول بھلیوں میں نکل پڑے۔ کھجور سے بنی چھتوں کے درمیان موجود خلا سے چھنکتی سورج کی کرنیں روشنی اور ہوا کا بہترین انتظام کر رہی تھیں۔

منشور نے بتایا کہ اس طرح درجہ حرارت بیس ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ ان آڑھی ترچھی گلیوں کو بنانے کا مقصد صحرا کی ریت کو روکنا تھا

اندرونی دیواریں، جو چونے کی تہہ سے چمک رہی تھیں، خشک مٹی کی اینٹوں سے بنائی گئی ہیں۔ ریت، تنکوں اور مٹی کے امتزاج سے پتھروں کو نمی سے محفوظ بنا دیا گیا ہے۔

یونیورسٹی آف مانچسٹر میں فن تعمیر کی پروفیسر ڈاکٹر سوسینا ہیگن بتاتی ہیں کہ یہ تکنیک اتنی بہترین کیوں ہے؛ اس کا راز دیوار کی تعمیر میں چھپا ہے۔ مٹی کی موٹی دیواریں سورج کی حدت کو دن میں عمارت کے اندر داخل ہونے سے روکتی ہیں اور رات کے وقت اسی حدت کو سرد آسمان کی جانب لوٹا دیتی ہیں۔ صبح تک یہ دیواریں دوبارہ ٹھنڈی ہو چکی ہوتی ہیں اور یہ حفاظتی عمل دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ دستیاب تعمیراتی مواد کا ماہرانہ استعمال کم تر وسائل سے زیادہ سے زیادہ آرام دہ تعمیر کو ممکن بناتا ہے۔ اس صحرا میں اس سے ایئر کنڈیشنر کے بغیر ٹھنڈک مہیا کرتا ہے اور سردی میں گرم رکھتا ہے۔

یہاں سادہ کھجور کے درختوں سے بنی کئی مساجد موجود ہیں جن میں سے اب کم ہی استعمال میں لائی جاتی ہیں، زیادہ تر صرف جمعے کے دن۔ تاہم ان کی محرابیں کافی شاندار ہیں جن پر تصاویر اور دیگر دلکش تحریریں بنی ہیں جو ان کی جاذبیت اور پراسراریت میں اضافہ کرتی ہیں۔

شہر کے وسط میں ہم شہتوت کے درختوں سے گھرے چوک میں پہنچے۔ منشور نے بتایا کہ کسی زمانے میں یہ ایک بازار تھا جہاں غلاموں کی فروخت ہوا کرتی تھی۔

دراصل یہاں کی آبادی کی صدیون پرانی بڑی صنعت یہی شرمناک روایت تھی جو اس شہر کیے معاشی عروج کی وجہ تھی اور آخر کار جب اس رواج کو انیسویں صدی میں ختم کر دیا گیا تو زوال کا باعث بنی تاہم اس سے قبل سونے، چاندی، ہتھیاروں اور گھوڑوں جیسے قیمتی سامان سمیت تاجروں کے قافلے جوق در جوق یہاں کا رخ کرتے۔

غدامس ایک ایسے اہم مقام پر واقع ہے جہاں تیونس، الجیریا اور لیبیا کی سرحد ملتی ہے۔ یہاں سے اونٹوں پر سامان سے لدے قافلے مغرب میں ٹمبکٹو، جنوب میں گھاٹ اور شمال میں یونانی بندرگاہوں کا رخ کرتے تھے۔

یہ ثقافتوں کے ملاپ کا اہم مقام بن گیا اور اس کے شہریوں، جن کو غدامسیا کہا جاتا تھا، کی عزت اور ربتے میں بہت اضافہ ہوا۔

اس شہر کی ترقی کا سفر غلامی کی روایت کے خاتمے تک جاری رہا جس کے دوران یہاں سلطنت عثمانیہ کا راج بھی رہا۔ بعد میں بیسویں صدی کے آغاز میں اطالوی اور فرانسیسی نوآبادیاتی نظام نے یہاں کا رخ کیا

میں پانی کی کمی اور جدید سہولیات کے فقدان کی وجہ سے معمر قذافی نے قریب ہی ایک نیا شہر آباد کرنے کا حکم دیا۔

آج اس شہر میں کوئی مستقل رہائشی نہیں تاہم موسم گرما کی حدت میں یہاں کی بہتر ماحولیاتی تعمیر کی وجہ سے قریبی شہر کے لوگ کنکریٹ سے بنے اپارٹمنٹ چھوڑ کر یہاں کی مساجد اور چائے خانوں کو آباد کر دیتے ہیں۔

یہ لوگ یہاں موجود ایک سو اکیس خاندانی باغیچوں کی دیکھ بھال بھی کرنے آتے ہیں جن کو ایک زیر زمین چشمے اور چند کنووں کی مدد سے بنائے گئے پیچیدہ نظام سے سیراب کیا جاتا ہے۔

مجھے کھجور اور پھلوں کے درختوں کے سائے تلے نظر دوڑاتے ہوئے عمارات پر موجود تکون نما خلا اور شاندار کلس بہت بھائے۔ منشور نے ہنستے ہوئے مجھے بتایا کہ یہ کلس اس لیے بنائے جاتے تھے کہ چھتوں پر جن نہ اتر سکیں۔ شہر کی گلیوں کی بھول بھلیوں میں لوٹتے ہوئے ہم ایک ایسے گھر میں داخل ہوئے جو تفریح کے لیے آنے والوں کے لیے کھلا ہے۔ میرے لیے یہ کافی دلچسپ تجربہ تھا۔ باہر کی سادگی کے برخلاف اندر رنگ ہی رنگ تھے جو دیواروں، قالین، الماریوں میں جھلک رہے تھے

منشور نے چھت میں موجود ایک خفیہ دریچہ کھولا تو سورج کی کرنوں کا سیلاب اندر امڈ آیا۔

گھر کے بالکل اوپر والے حصے میں ایک چھوٹا سا باورچہ خانہ اور سایہ دار برآمدہ تھا۔ سیڑھیاں ایک بڑی سی ٹیرس کی طرف لے گئیں جہاں ایک اور تعمیراتی معجزہ موجود تھا۔ شہر کے تمام گھر تاحد نگاہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔

منشور نے بتایا کہ یہ خواتین کی دنیا تھی جن کے لیے مقامی سلامی روایات کے مطابق صرف ایک گلی استعمال کرنے کی اجازت تھی اور اسی لیے وہ پورا دن کھانا پکانے، سلائی اور ایک دوسرے سے ملنے جلنے میں گزارتی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ آنے والے قافلوں پر بھی نظڑ رکھتی تھیں۔

گرم موسم میں کچھ چھتوں پر ہی سو جاتی تھیں۔ سورج کی بے رحم حدت کے نیچے یہ واضح تھا کہ اس شہر میں مرد ہی اصل طریقے سے یہاں کی فن تعمیر کا مزہ لیتے تھے لیکن مرد اور خواتین دونوں اس شہر کی خوبصورتی، ذہانت اور پیچیدگی میں حصے دار تھے جو صحرا کی گہرائیوں میں گم ہو چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں