امریکی صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد جنوبی کوریا سے شروع ہونے والی ’فور بی‘ تحریک اب دنیا بھر میں توجہ حاصل کر رہی ہے لیکن یہ خواتین چار اصولوں کے مطابق زندگی کیوں گزرانا چاہتی ہیں جن کے مطابق نہ ہی وہ جنسی تعلقات قائم کریں گی، نہ کوئی ڈیٹنگ اور نہ ہی شادی اور بچے۔
مِن جو کو وہ پوسٹ یاد ہے جس نے دنیا بھر کی خواتین کی توجہ حاصل کی: ’ٹرمپ کے انتخاب کے بعد، مرد کہتے ہیں کہ اسقاط حمل گناہ ہے، پھر بھی وہ خواتین سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ جنسی تعلق قائم کریں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دونوں باتیں ایک ساتھ نہیں ہو سکتیں۔‘
27 سالہ خاتون جن سے ہم نے دوسری بہت سی خواتین سمیت اس تحریر کے لیے بات کی، انھوں نے ہمیں ہراساں کیے جانے کے خوف سے نام تبدیل کرنے کے لیے کہا۔
یہ خواتین ’فور بی‘ اصولوں پر زندگی بسر کرتی ہیں یعنی کوئی ڈیٹنگ نہیں، کوئی جنسی تعلق نہیں، کوئی شادی نہیں، اور کوئی بچہ نہیں۔
یہ ایک ایسی تحریک ہے جو جنوبی کوریا کے فیمینسٹ حلقے کی طرف سےشروع کی گئی، جنھوں نے معاشرے میں خواتین کے خلاف نفرت کے جواب میں مردوں کے بغیر رہنے کا انتخاب کیا۔
مِن جو کہتی ہیں کہ ’ہم مسلسل ایسی خبریں سنتے رہتے ہیں کہ خواتین ڈیٹنگ کے دوران تشدد کا شکار ہو رہی ہیں یا تعلقات ختم کرنے کی کوشش میں انھیں قتل کر دیا گیا۔‘
صنف کے روایتی کردار اور توقعات کو چیلنج کرنے والی یہ تحریک اب امریکہ میں بھی پھیلنا شروع ہو گئی ہے۔
حالیہ ہفتوں میں امریکی صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد مغرب میں ’فور بی‘ تحریک کے بارے میں بحث میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔
جنوبی کوریا کی فیمینسٹ خواتین، جنھوں نے اس تحریک کے اصولوں کو فروغ دیا اور ان کے مطابق زندگی بسر کی، حالیہ عالمی توجہ کے بعد حوصلہ افزائی بھی محسوس کر رہی ہیں تاہم وہ مایوسی بھی محسوس کرتی ہیں۔
فور بی ہے کیا؟
فور بی در اصل چار کوریائی اصطلاحوں کا مححف ہے: بی یون اے (کوئی ڈیٹنگ نہیں)، بی سیکس (کوئی جنسی تعلق نہیں)، بی ہون (کوئی شادی نہیں) اور بی چول سان (بچے کی پیدائش نہیں)۔
کورین زبان میں بی کا مطلب ’نہیں‘ ہے۔
جی سن (فرضی نام ) کہتی ہیں کہ ’یہ خواتین کے لیے ایک تصور، ایک تحریک اور روزمرہ کی مشق ہے۔‘
اسقاط حمل کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ بی ویو کی ایک سابق رہنما کہتی ہیں کہ ’فور بی‘ کا تصور 2016 کے آس پاس کئی بنیاد پرست فیمینسٹ گروپوں کی جانب سے آیا۔
جی سن کا کہنا ہے کہ بی ہون (شادی نہ کرنا) اُس پدرشاہی خیال کو مسترد کرنے کے لیے بنایا گیا تھا جس کے مطابق شادی خواتین کو ’مکمل‘ کرتی ہے۔
خواتین کی خود مختاری پر زور دینے کے لیے دوسرے اصول جیسے جنسی تعلقات، ڈیٹنگ اور بچے پیدا کرنے سے انکار کرنا شامل کیا گیا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ہڑتال نہیں بلکہ اپنا احترام کرنے کا انتخاب ہے۔‘ ان کے لیے ’فور بی‘ کا مقصد پدر شاہی کو ختم کرنا ہے نہ کہ مردوں کو مسترد کرنا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ خواتین کے لیے انسان کی طرح زندگی گزارنے کی تحریک ہے۔ ڈیٹنگ، سیکس، شادی اور بچے کی پیدائش حقیقت میں خواتین کو کمزور کرتی ہے۔‘
جی سن تو ’6 بی‘ کے نئے تصور کے بارے میں بھی بات کرتی ہیں جو اس تحریک کی توسیع ہے جس میں ’خواتین کا جنسی استحصال کرنے والی مصنوعات ترک کرنا‘ اور غیر شادی شدہ خواتین کی ایک دوسرے کی حمایت شامل ہے۔
گونگ یون ہوا، جنھوں نے اس تحریک کے بارے میں تعلیمی مقالے لکھے، بتاتی ہیں کہ انھوں نے فور بی اصولوں کو اپنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’بہت سی خواتین کو یہ احساس ہونے لگا کہ نہ صرف شادی بلکہ ڈیٹنگ اور یہاں تک کہ جنسی تعلقات بھی انھیں خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔‘
گنگنم قتل، جس میں ایک 34 سالہ شخص نے سنہ 2016 میں عوامی ریسٹ روم میں ایک خاتون کو چاقو مار کر ہلاک کر دیا تھا، سیئول میں فیمینسٹ کی ایک ریلی کی وجہ بنا۔
خواتین سڑکوں پر نکل آئیں اور نعرے لگائے کہ ’وہ صرف اس لیے شکار ہوئی کیونکہ وہ ایک خاتون تھی۔‘
یون ہوا نے وزارت صنفی مساوات اور خاندان کی 2020 کی ایک رپورٹ کا ذکر کیا جس میں پایا گیا کہ 42 فیصد مردوں نے کم از کم ایک بار جنسی تسکین کے لیے جسم فروشوں کے پاس جانے کا اعتراف کیا۔
وہ کہتی ہیں کہ اس انکشاف نے ان کی دوستوں کو اپنے مرد پارٹنرز کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں بھی کبھی کبھی اکیلا محسوس کرتی ہوں لیکن میں نے محسوس کیا کہ شک اور خوف سے بھرا رشتہ اتنا قیمتی نہیں جتنا کہ دوسری خواتین کی مدد کرنے میں اپنا وقت اور توانائی خرچ کرنا ہے۔‘
’فور بی‘ میں شامل جنوبی کوریائی خواتین
من جو کے مطابق ’فور بی‘ خود کو جسمانی اور ذہنی طور پر اس تشدد سے بچانے کا ایک طریقہ ہے جس کا سامنا خواتین تعلقات میں کر سکتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجرموں کو اکثر بہت کم سزا ملتی ہے۔ کوریا میں ڈیٹنگ کرنا ایسا لگتا ہے جیسے کسی شخص کو یہ حق سونپ دیا جائے کہ وہ مجھے نقصان پہنچائے یا یہاں تک کہ میری زندگی لے لے۔‘
30 سالہ گومسی کہتی ہیں کہ اپنی بیضہ دانی کو ہٹانے کے لیے طبی عمل سے گزرنے سے انھیں فور بی طرز زندگی اپنانے کی ترغیب ملی۔
’اس سب نے مجھے احساس دلایا کہ عورت کے جسم کو افزائش نسل کے آلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘
گومسی کا کہنا ہے کہ فور بی مزاحمت کی ایک غیر فعال شکل ہے جس کا خواتین کھلے عام اعلان نہیں کرتیں لیکن انھوں نے افزائش نسل کو کنٹرول کرنے کے لیے خاموشی سے ایسا کرنے کا فیصلہ کیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ایک ایسے معاشرے میں زندہ رہنے کا طریقہ بن گیا ہے جو خواتین کی آواز کو نظر انداز کرتا ہے۔ یہ خواتین سے نفرت اور فیمینزم کے مخالفین کا قومی بائیکاٹ ہے۔‘
خواتین تسلیم کرتی ہیں کہ جنوبی کوریا میں فور بی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنا ایک چیلنج ہے۔
من جو کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنے فیصلے کے بارے میں مرد دوستوں یا ساتھیوں کو نہیں بتایا۔ ’مجھے لگتا ہے کہ کھلے عام فور بی کے طور پر شناخت کرنا خطرناک ہے، میں نے بہت سے حامیوں کو اپنا موقف سرعام آن لائن شیئر کرنے کے بعد سائبر بلنگ کا سامنا کرتے دیکھا۔‘
یون ہوا اب آسٹریلیا میں رہتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انھیں لگتا ہے کہ ان کا آبائی ملک ان کے لیے ’غیر محفوظ‘ ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’صنفی امتیاز کا سامنا کرنے کے علاوہ صرف خواتین کے حقوق کی وکالت کرنے اور فیمینزم کی پیروی کرنے نے مجھے دھمکیوں کا نشانہ بنایا، جس نے مجھے بہت پریشان کر دیا۔‘
’جب بھی میں کھلے عام فور بی تحریک کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کرتی ہوں تو مجھے فوری طور پر ’فیمینسٹ‘ قرار دیا جاتا ہے، ایک ایسی اصطلاح جو کوریائی معاشرے میں دشمنی کو بھڑکا سکتی ہے۔‘
دوسرے ملکوں میں پھیلتی ’فور بی‘ تحریک
آنے والے امریکی صدر نے اسقاط حمل کے بارے میں فیصلہ انفرادی ریاستوں پر مقامی قوانین کے مطابق چھوڑ دیا ہے، اس چیز نے خواتین کے حقوق کے گروپوں میں اسقاط حمل کی ممکنہ وفاقی پابندی کے بارے میں خدشات کو بڑھا دیا ہے۔
صدر، سینیٹ اور ایوان نمائندگان پر ریپبلکنز کا کنٹرول ہے اور سپریم کورٹ میں قدامت پسند اکثریت کے ساتھ وہ سخت قانون سازی کرنے کی مضبوط پوزیشن میں ہیں۔
اس کے علاوہ خواتین کے بارے میں ٹرمپ کے ماضی کے بیانات بشمول جنسی استحصال کے الزامات اور ان کی حریف کملا ہیرس کے بارے میں متنازع بیانات دہرائے جا رہے ہیں۔
اس کے جواب میں امریکی خواتین میں ’فور بی‘ کو اپنانے کی تحریک بڑھ رہی ہے۔
اس تحریک کے بارے میں سوشل میڈیا پوسٹس نمایاں توجہ حاصل کر رہی ہیں جبکہ سرچ انجن کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے کچھ مہینوں کے دوران اس دلچسپی میں ڈرامائی اضافہ ہوا۔
یون ہوا فور بی کے عالمی پھیلاؤ کو مثبت اور تلخ دونوں طرح سے دیکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ایک طرف تو مجھے فخر ہے کہ کوریائی خواتین کی جانب سے شروع کی جانے والی تحریک فور بی اب عالمی سطح پر فیمینسٹ گفتگو کا حصہ بن چکی ہے۔‘
تاہم جنوبی کوریا میں فور بی کے بارے میں عوامی آگاہی اور جذبات محدود یا پھر منفی ہیں۔
کم ہیون نے پہلی بار تین سال قبل آن لائن اس تحریک کو دیکھا۔ 30 سالہ اداکارہ کا کہنا ہے کہ ’میں ان لوگوں کے بارے میں رائے قائم نہیں کرتی جو فور بی پر عمل کرتے ہیں لیکن میں نے دیکھا ہے کہ کچھ خواتین دوسری خواتین کو ان اقدار کو نہ اپنانے پر مورد الزام ٹھہراتی ہیں اور یہ غلط ہے۔‘
کچھ لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ انھوں نے اس تحریک کے بارے میں کبھی نہیں سنا۔
کِم مِی رم کہتی ہیں کہ ’میں اسے جزوی طور پر سمجھ سکتی ہوں کہ کچھ خواتین اس طرز زندگی کا انتخاب کیوں کرتی ہیں لیکن میرے خیال میں اس کی وجہ معاشی چیلنجز ہیں۔ روز مرہ کی بڑھتی ہوئی لاگت کے ساتھ، قریبی تعلقات میں مشغول ہونا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔‘