ایک کائنات یا بہت سی کائناتیں؟🤔
کائنات ایک وسیع سمندر کی مانند ہے۔ ہم جدھر دیکھتے ہیں وہ لامحدود فاصلوں تک پھیلی ہوئی نظر آتی ہے۔ آسمان ستاروں سے بھرا ہوا ہے، کھربوں ستارے ایک کہکشاں بناتے ہیں، اور اربوں کہکشائیں، کہکشاؤں کے جھرمٹ کی تشکیل کرتی ہیں۔ کائنات کی وسعت اس سے کہیں زیادہ ہے۔
جب ہائی پاور دوربینوں کی مدد سے دیکھا جائے تو بہت سی دیگر کائناتی اشیاء کو براہ راست یا بالواسطہ دیکھا جا سکتا ہے۔
اربوں نیوٹران ستارے ہیں، جن کی کثافت اتنی زیادہ ہے کہ ایک چمچے کے برابر ایسے ستارے کا وزن 4 بلین ٹن ہو گا۔
نیوٹران ستارے ایک شاندار چمکتے دمکتے ستارے کی آخری منزل ہوتے ہیں جب وہ اپنی تمازت کھونے کے بعد موت کے مرحلے میں داخل ہوتے ہیں۔
یہاں ٹمٹماتے پلسار بھی ہیں جو کائناتی روشنی کے میناروں کی طرح نظر آتے ہیں۔
اور پھر کائنات کی سب سے زیادہ پر اسرار اشیاء، بلیک ہولز ہیں جو ایک نقطے سے بھی بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ وہ اس سب سے چھوٹی چیز سے بھی چھوٹے ہوتے ہیں جس کا ہم تصور کر سکتے ہیں، لیکن سورج سے اربوں گنا زیادہ بھاری ہوتے ہیں۔ فطرت کے قوانین جو کائنات میں ہر جگہ درست نظر آتے ہیں بلیک ہولز کے پڑوس میں ان کی افادیت ختم ہو جاتی ہے۔
خلا کی وسعت ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ ہم جس کائنات میں رہتے ہیں وہ واحد کائنات ہونی چاہیے۔ ایسی کوئی بھی تجویز کہ ہماری کائنات تقریباً لامحدود کائناتوں میں سے ایک ہو سکتی ہے، مضحکہ خیز لگتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ ناقابل یقین بات یہ لگتی ہے کہ کائنات کی یہ بڑی تعداد ایک دوسرے کے ساتھ تعامل نہیں کر سکتی، اور یہ کہ ہر سیکنڈ میں اربوں نئی کائناتیں تخلیق ہو رہی ہیں۔
یہ سب کچھ سائنس فکشن لگتا ہے۔ تاہم، اس بات پر یقین کرنے کی وجوہات ہیں کہ شاید ہماری کائنات واحد نہیں ہے اور کائناتوں کی ایک ناقابل تصور بڑی تعداد موجود ہے۔
وہ کیا چیز ہے جو ہمیں یہ سوچنے کی ترغیب دیتی ہے کہ ایک کائنات کے بارے میں ہمارا عام فہم نظریہ غلط ہو سکتا ہے اور دوسری کائناتیں بھی موجود ہیں؟
اس سوال کا جواب دینے کے لیے، ہمیں کوانٹم میکانکس کے قوانین کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ قوانین اس قدر عجیب اور پراسرار ہیں کہ متعدد کائناتوں کے وجود کا حیرت انگیز قیاس ان قوانین کی توجیہہ کے لیے کوئی بڑی قیمت نہیں ہے۔
ایک سے زیادہ کائناتوں کا تصور کیسے وجود میں آیا؟
اور اس نظریے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
وہ کون سے مشاہدات ہیں جن کو متعدد کائناتوں کے مفروضے کے تحت حل کیا جا سکتا ہے؟
ان بنیادی سوالوں کا جواب دینے سے پہلے، کوانٹم میکانکس کے کچھ عجیب و غریب پہلوؤں کو سمجھنا ہو گا جو اس کی بنیاد بناتے ہیں۔
لیکن سب سے پہلے مجھے اس بات پر زور دینا چاہیے کہ کوانٹم میکانکس 1925 میں آزادانہ طور پر ورنر ہائزنبرگ اور ایرون شروڈنگر نے ایجاد کی تھی، اور تقریباً سو سال گزرنے کے بعد، کوئی ایک بھی ایسا مشاہدہ نہیں ہے جو کوانٹم میکانکس کی پیشین گوئیوں کی خلاف ورزی کرتا ہو۔ یہ ایک حیرت انگیز طور پر کامیاب نظریہ ہے جس نے ہمیں ایٹمی ذرات جیسی چھوٹی چیزوں سے لے کر کائناتی سائز کی اشیاء تک کے مظاہر کی تفہیم فراہم کی ہے۔
کوانٹم میکانکس کی بنیاد پر فطرت کے بارے میں ایسے پہلوؤں کی ایک جزوی فہرست یہ ہے جو ہماری سمجھ سے باہر دکھائی دیتے ہیں:
ویو پارٹیکل ڈوئلٹی: روشنی کے بارے میں ہماری عام فہم یہ ہے کہ یہ لہروں پر مشتمل ہے۔ برقی مقناطیسی لہریں۔ ان لہروں کو تعدد اور طول موج جیسے پیرامیٹرز کے لحاظ سے بیان کیا گیا ہے۔
کوانٹم میکانکس کی سب سے زیادہ پریشان کن پیشین گوئیوں میں سے ایک یہ ہے کہ، کچھ تجربات میں، روشنی ایک لہر کی طرح برتاؤ کر سکتی ہے لیکن، کچھ دوسرے تجربات میں، یہ ذرات کی طرح برتاؤ کرتی ہے۔ ایک ہی روشنی لہر اور ذرہ دونوں پہلوؤں کی نمائش کرتی ہے اس پر منحصر ہے کہ ہم کیا تجربہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
روشنی کی یہ ناقابل فہم تصویر سب سے پہلے 1905 میں البرٹ آئن اسٹائن نے متعارف کرائی تھی جب دھاتی پلیٹ سے الیکٹران کے اخراج کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے روشنی کو لہر کی بجائے ایک ذرہ کی طرح تصور کیا جس کو فوٹون کا نام دیا گیا۔
انہیں اس وضاحت پر، نظریہ اضافیت پر ان کے زیادہ مشہور کام کے بجائے، 1921 کا نوبل انعام دیا گیا۔ لیکن آئن اسٹائن خود اپنی زندگی کے دوران روشنی کی لہر اور ذرہ کی دوہری کیفیت کے اس تصور سے اس قدر غیر مطمئن رہے کہ، اپنی زندگی کے اختتام کے قریب، انہوں نے کہا:
تمام پچاس سال کی شعوری کوشش کے باوجود مجھے اس سوال کا حتمی جواب نہیں مل سکا کہ روشنی کی حقیقت کیا ہے؟ بے شک آج ہر ایرا غیرا یہ سمجھتا ہے کہ اسے اس سوال کا جواب معلوم ہے، لیکن وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہے۔
1924 میں، ایک فرانسیسی سائنسدان، لوئس ڈی بروگلی نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں دلیل دی کہ، اگر روشنی لہر اور ذرہ دونوں رویوں کی نمائش کر سکتی ہے، تو الیکٹران اور دیگر بڑے ذرات بھی لہر کے ذرہ کی دوہرایت کو ظاہر کر سکتے ہیں۔ ایک بار پھر، اہم بات یہ ہے کہ آیا یہ ذرات لہروں کی طرح برتاؤ کرتے ہیں یا ذرات کی طرح، یہ تجرباتی سیٹ اپ پر منحصر ہے۔
پیمائش کی امکانی نوعیت: شاید کوانٹم میکانکس کا سب سے زیادہ مشہور اسرار یہ ہے کہ اس میں نیوٹن سے وابستہ قوانین کا کوئی تعین نہیں ہے۔ اگر ہم گیند کو دیوار پر ایک خاص زاویے پر پھینکتے ہیں، تو ہم نیوٹن کے حرکت کے قوانین کے مطابق یہ یقین سے بتا سکتے ہیں کہ گیند پھینکنے کے بعد کسی بھی وقت کہاں ہو گی۔ کوانٹم میکانکس کے مطابق یہ ناممکن ہے۔ ہم سو فیصد یقین کے ساتھ یہ نہیں بتا سکتے کہ گیند کسی بھی وقت کہاں ہو گی۔
ایک اور مثال کے طور پر، ہم سب سے سادہ ایٹم، ہائیڈروجن پر غور کرتے ہیں۔ ایک ہائیڈروجن ایٹم ایک پروٹون پر مشتمل نیوکلیئس اور ایک الیکٹرون پر مشتمل ہوتا ہے۔ کوانٹم میکانکس کے مطابق، الیکٹرون نیوکلیئس کے گرد ایک بادل کی طرح ہوتا ہے۔ تاہم، یہ بادل الیکٹرون کی نمائندگی نہیں کرتا ہے۔ اس کے بجائے، نیوکلیئس کے گرد بادل الیکٹرون کو تلاش کرنے کے امکانات کی نمائندگی کرتا ہے۔ یوں تو بادل کی ساخت کافی پیچیدہ ہو سکتی ہے لیکن الیکٹرون کو تلاش کرنے کا امکان نیوکلیئس کے قریب عمومی طور پر زیادہ ہوتا ہے اور دور کم۔ یہ تصویر ایسی کسی بھی چیز سے مشابہت نہیں رکھتی جو ہم اپنے آس پاس کی دنیا میں دیکھتے ہیں۔
کوانٹم مکینیکل پیشین گوئیوں کی اس امکانی نوعیت نے کوانٹم مکینکس کے کئی علمبرداروں کو کافی ناخوش کیا۔ مثال کے طور پر، اپنے ایک پچھلے مضمون میں میں نے البرٹ آئن سٹائن کا قول نقل کیا تھا:
"کوانٹم مکینکس یقیناً ایک متاثر کن تھیوری ہے۔ لیکن ایک اندرونی آواز مجھے بتاتی ہے کہ یہ ابھی تک اصل چیز نہیں ہے۔ نظریہ بہت کچھ کہتا ہے لیکن حقیقت میں ہمیں اصلیت کے راز کے قریب نہیں لاتا۔ مجھے، کسی بھی قیمت پر، یقین ہے کہ وہ (خدا) پانسہ نہیں کھیل رہا ہے۔”
جس کا نیلز بوہر نے جواب دیا تھا:
"آئن سٹائن، خدا کو بتانا بند کرو کہ اسے کیا کرنا ہے۔”
حقیقت:
مندرجہ بالا بحث ہمیں اہم سوالات پوچھنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ہم نے بتایا ہے کہ کبھی روشنی ایک لہر کی طرح برتاؤ کرتی ہے اور کبھی ایک ذرہ کے طور پر، یہ مکمل طور پر تجرباتی سیٹ اپ پر منحصر ہے۔
کسی بھی پیمائش سے پہلے روشنی کی نوعیت کے بارے میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ پیمائش کے آلات سے گزرنے سے پہلے کیا روشنی لہر تھی یا کوئی ذرہ؟
اسی طرح کے سوالات کسی دوسری چیز، لہر یا ذرہ کے لیے بھی پوچھے جا سکتے ہیں۔
پیمائش کے نتائج کی امکانی نوعیت بھی حقیقت کے بارے میں ایک اہم سوال کو جنم دیتی ہے۔
اگر، پیمائش کے نتیجے میں، ہمیں کسی خاص مقام پر ہائیڈروجن ایٹم میں الیکٹرون نظر آتا ہے، تو کیا ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ پیمائش سے پہلے بھی یہ وہاں موجود تھا؟
زیادہ تر طبیعیات دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کوئی بھی معروضی حقیقت کسی بھی چیز یا خاصیت کے ساتھ منسلک نہیں ہو سکتی جب تک کہ پیمائش نہ کی جائے۔ پیمائش سے پہلے صرف تصورات ہیں، کوئی معروضی حقیقت نہیں۔ یہ حیرت انگیز تشریح فطرت کے بارے میں ہمارے تصور کو بدل دیتی ہے۔
یہ بات ہمارے اندر پیوست ہے کہ اشیاء حقیقی ہیں، چاہے ہم انہیں دیکھیں یا نہ دیکھیں۔ چاند اس وقت بھی موجود ہوتا ہے جب اسے کوئی نہیں دیکھتا۔ اگر کوئی ہمیں یہ کہے کہ چاند اس وقت موجود نہیں ہوتا، جب ہم اسے نہیں دیکھتے اور صرف اس وقت ہوتا ہے جب ہم اسے دیکھتے ہیں تو ہم بالکل چونک جائیں گے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کائنات میں کوئی چیز حقیقی نہ ہو اور ہر چیز اس وقت تک تصور ہی رہے جب تک پیمائش نہ ہو جائے؟
لیکن کوانٹم مکینکس کی توجیہ کے مطابق تو ایسا ہی لگتا ہے۔ یہ کوانٹم مکینکس کی کوپن ہیگن تشریح کے نام سے موسوم ہے کیونکہ یہ توجیہ سب سے پہلے نیلز بوہر نے دی تھی جو ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے عظیم سائنسدان تھے اور کوپن ہیگن میں ایک انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر تھے۔ زیادہ تر طبیعیات دان اس کی عجیب و غریب نوعیت کے باوجود، کوپن ہیگن تشریح کے قائل ہیں۔
لیکن ایک اقلیت ایسی بھی ہے جو اس تشریح سے غیر مطمئن رہی ہے۔
شروڈنگر کوانٹم میکانکس کے بانی تھے جن کی دریافت کردہ ایکویشن کائنات میں کسی بھی نظام کے ارتقاء کو بیان کرتی ہے اور یہ سائنس کی تاریخ میں لکھی گئی سب سے اہم ایکویشن ہے۔
شروڈنگر، ایک موقع پر اپنی دریافت کردہ تھیوری کے عجیب و غریب نتائج سے اس قدر غیر مطمئن ہو گئے، جیسے کہ عزم کا خاتمہ اور حقیقت کا مسئلہ، کہ انہیں کوانٹم مکینیکل قوانین کی تشکیل میں ملوث ہونے پر افسوس ہوا۔
وہ ان قوانین، جن کی تخلیق میں انہوں نے اہم ترین کردار ادا کیا تھا، کے اتنا مخالف ہو گئے تھے کہ انھوں نے دلائل کی بنیاد پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اگر کوانٹم مکینکس قوانین کو قبول کر لیا جائے تو ایسے عجیب اور مضحکہ خیز نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جو ناقابل یقین ہوں گے۔
اس بارے میں ان کی دی گئی سب سے مشہور مثال یہ ہے کہ کوانٹم مکینکس کے قوانین ایک ایسی بلی کی موجودگی کا امکان پیش کرتے ہیں جو بیک وقت زندہ اور مردہ حالت میں موجود ہو۔
شروڈنگر ہمیں ایک بلی پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں جو اسٹیل کے ڈبے کے اندر رکھی گئی ہے۔
باکس کے اندر ایک تابکار ایٹم، ایک کاؤنٹر، ایک ہتھوڑا، اور زہر کی ایک شیشی بھی ہے۔
جب تک تابکار ایٹم سے روشنی کا اخراج نہیں ہوتا، بلی زندہ رہتی ہے۔
کوانٹم مکینکس کے قوانین کے تحت یہ پیشن گوئی کرنا ناممکن ہے کہ ایک خاص تابکار ایٹم کب تابکاری خارج کرے گا۔
جب ایٹم تابکاری خارج کرتا ہے تو یہ خارج شدہ شعاع کاؤنٹر سے ٹکراتی ہے، جو ایک ہتھوڑے کو متحرک کرتا ہے، یہ ہتھوڑا زہر کی شیشی کو پاش پاش کر دیتا ہے، نتیجتاً زہر کے زیر اثر بلی کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
اس طرح، ہمارے پاس دو امکانات ہیں :
تابکار کشی نہیں ہوتی ہے اور بلی زندہ ہے۔
یا تابکار کشی ہوتی ہے اور بلی مر جاتی ہے۔
اب شروڈنگر استدلال کرتے ہیں، کہ کوانٹم مکینکی قوانین کے مطابق ہمارے پاس تابکار ایٹم کی حالت سے وابستہ بلی ایسی حالت میں ہے جس میں ایک ہی وقت میں وہ بیک وقت زندہ اور مردہ ہونے کی حالت میں ہوتی ہے۔ یہ ایسی ناقابل یقین صورتحال ہے، جس کا ہم عام زندگی میں تصور بھی نہیں کر سکتے۔ حقیقی زندگی میں، ہمیں ایسی بلی نظر نہیں آتی جو بیک وقت زندہ اور مردہ ہو، وہ یا تو زندہ ہے یا مردہ۔
شروڈنگر کے مطابق جب اسٹیل کے ڈبے کو کھولا جائے تو بلی یا تو زندہ ہو گی یا مردہ حالت میں ہو گی۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ بلی زندہ حالت میں ہو گی یا مردہ حالت میں، اس کا پہلے سے تعین ناممکن ہے۔ جیسا کہ پہلے کئی بار ذکر کیا گیا ہے، اگر بلی زندہ حالت میں پائی جائے، تو کوانٹم مکینکس کے قوانین کے مطابق اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ڈبہ کھولنے سے پہلے بھی بلی زندہ حالت میں تھی۔ بلی کی زندہ کیفیت دیکھنے کے عمل کے باعث وجود میں آئی۔
پیمائش کی امکانی نوعیت کے یہ مسائل اور حقیقت کے بارے میں سوالات واقعی پریشان کن ہیں اور ماورائے عقل دکھائی دیتے ہیں۔ کیا کوئی طریقہ ہے کہ ان مسائل کو اس طور حل کیا جائے، کہ جسے ہماری عقل آسانی سے تسلیم کر سکے؟
جی ہاں، ان مسائل کا ایک ڈرامائی حل ہے جو اوپر بیان کیے گئے تقریباً تمام مسائل کو حل کرتا نظر آتا ہے۔ تاہم، اس کی ایک بہت بڑی قیمت دینی ہو گی:
ہمیں تقریباً لامحدود کائناتوں کے وجود پر یقین کرنے پر اتفاق کرنا ہو گا۔
اسے واضح طور پر دیکھنے کے لیے، آئیے پہلے شروڈنگر کی بلی کے مسئلے پر غور کریں۔ باکس کھولنے تک بلی بیک وقت زندہ اور مردہ دونوں حالت میں ہے۔ تاہم جب ڈبہ کھولا جاتا ہے تو بلی یا تو زندہ پائی جاتی ہے یا مردہ۔ اس کی وضاحت کیسے کی جائے؟
ایک سے زیادہ کائنات یا کئی دنیا کی تشریح کے مطابق جب ڈبہ کھولا جاتا ہے۔ اور بلی زندہ پائی جاتی ہے تو اسی وقت ایک اور کائنات وجود میں آ جاتی ہے جس میں سب کچھ ایک جیسا ہوتا ہے سوائے اس کے کہ بلی مر چکی ہوتی ہے۔ اس طور ہمارے پاس پیمائش کے نتیجے میں دو کائناتیں وجود میں آتی ہیں جو ہر لحاظ سے ایک جیسی ہیں سوائے اس کے کہ ایک کائنات، جس میں ہم موجود ہیں، بلی زندہ ہے اور دوسری کائنات جس میں بلی مردہ ہے۔ پھر دونوں کائناتیں ارتقاء جاری رکھتی ہیں جب تک کہ ایک اور پیمائش نہیں کی جاتی اور نئی کائناتیں تخلیق نہیں ہو جاتیں۔ اس طرح، اس عمل میں تقریباً لامحدود تعداد میں کائناتیں بنتی جاتی ہیں۔ یہ کائناتیں، تاہم، کسی بھی طرح سے ایک دوسرے کے ساتھ تعامل نہیں کرتی ہیں۔ ہم اپنی کائنات میں رہتے ہوئے کسی دوسری کائنات کی موجودگی کسی طور ثابت نہیں کر سکتے۔
اس سادہ مگر عجیب و غریب وضاحت سے حقیقت کے مسئلے سے نجات مل جاتی ہے۔ متعدد دنیا کی تشریح میں، ہر امکان ایک حقیقت ہے۔ کوانٹم میکانکس کی تصوراتی بنیادوں کے اس سادہ اور منطقی انداز میں حقیقت کے سوالات سے متعلق تمام مسائل حل ہو جاتے ہیں۔
یہ تشریح جس کے مطابق لامحدود تعداد میں کائناتیں موجود ہو سکتی ہیں، ایک طرف تو نیوٹن کے دریافت کردہ قوانین سے وابستہ تعین کو بحال کر دیتی ہے اور دوسری طرف، یہ کوانٹم میکانکس کی امکانی نوعیت کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔ اس تشریح کے مطابق ہم مختلف کائناتوں میں نتائج کی قطعی طور پر پیشین گوئی کر سکتے ہیں مگر اپنی کائنات میں صرف امکانی نتیجے اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر بلی کی مثال پر غور کرتے ہوئے، ہم بلی کو حقیقی شے سمجھیں گے جو ایک کائنات میں زندہ پائی جائے گی اور دوسری کائنات میں مردہ۔
کوانٹم میکانکس کی بنیادوں سے وابستہ زیادہ تر مسائل کو حل کرنے کے باوجود، لا محدود کائناتوں سے وابستہ تشریح کے اپنے بہت سے مسائل ہیں۔
اب تک، میں نے ایک بلی کی مثال پر غور کیا ہے جس میں دو امکانات، زندہ اور مردہ کے برابر امکانات ہیں۔ اس صورت حال میں، پیمائش کے دو مختلف ممکنہ نتائج کے مطابق دو ایک جیسی کائناتوں کی تخلیق کا تصور کرنا آسان ہے۔
لیکن ان حالات میں کیا ہو گا جب یہ سچ نہ ہو؟
مثال کے طور پر، ہم ایک ایسے الیکٹران پر غور کرتے ہیں جو ایک چھوٹے سے سوراخ میں سے گزر کر ایک اسکرین کی طرف بڑھتا ہے۔ کوانٹم مکینیکل قوانین کے مطابق، الیکٹران کو ہم لہر کی طرح تصور کرتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ پچھلے مضمون میں ذکر کیا، الیکٹرون کی لہر سکرین پر پھیل جائے گی۔ لیکن الیکٹرون کی لہر کوئی اصلی لہر نہیں، یہ تو ایک امکانی لہر ہے۔ سکرین پر جہاں لہر گہری ہو گی وہاں الیکٹرون کے پائے جانے کا امکان زیادہ ہو گا۔ اس طور سکرین کے مرکز میں الیکٹرون کے پائے جانے کا امکان زیادہ ہو گا، اور جیسے جیسے مرکز سے دور ہوتے جائیں گے، الیکٹرون کے پائے جانے کا امکان کم ہوتا جائے گا۔ اس صورت میں، امکانات کی تقسیم پورے خطے میں پھیلی ہوئی ہے۔ الیکٹران اسکرین پر کہاں ٹکرائے گا، اس کے بارے میں لاتعداد امکانات موجود ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس منظر نامے میں کتنی کائناتیں بنیں گی؟
اور تخلیق شدہ کائناتوں کی تعداد میں مختلف امکانی تقسیم کا حساب کیسے لیا جائے گا؟
کچھ لوگوں نے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے لیکن اس کے نتیجے میں سامنے آنے والی تصویر اس سے بھی زیادہ عجیب ہے۔
چونکہ نئی پیدا ہونے والی کائناتیں ایک دوسرے کے ساتھ تعامل نہیں کر سکتیں۔ اس لئے اس مفروضے کو جانچنا ممکن نہیں۔
مفروضے کو جانچنے میں ہماری ناکامی کے پیش نظر، متعدد کائناتوں کی تشریح مابعد الطبیعیات کے دائرے میں تصور کی جاتی ہے۔
زیادہ تر طبیعیات دان کوپن ہیگن کی تشریح کو اس کی پراسرار نوعیت کے باوجود، قبول کرتے ہیں۔ یہ توجیہہ اس وقت تک اچھی طرح کام کرتی ہے جب تک کہ ہم کائنات کی اصلیت کے بارے میں فلسفیانہ سوالات پوچھنا شروع نہ کر دیں۔
یہ مضمون ڈاکٹر سہیل زبیری کی کتاب A Mysterious Universe Oxford University Press 2023 سے ماخوذ ہے