کسی بھی گھر کے باورچی خانے میں مسالوں کے ڈبے کے اندر جھانکیں، تو آپ کو ہلدی، لال مرچ پاؤڈر اور پسا ہوا دھنیا (جسے اکثر زیرے کے ساتھ ملایا جاتا ہے) ملے گا جو کئی طرح کے سالن، دال یا سبزی کے پکوان کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔
اگرچہ اس میں ہلدی جیسا حیرت انگیز زرد رنگ نہیں اور یہ انڈیا کے کسی بھی تیکھے ذائقے جیسے مرچ پاؤڈر جیسا نہیں لیکن دھنیا شاید ان مسالوں میں سب سے زیادہ منفرد ہے۔
اس کے پسے ہوئے بیج بہت سے پکوانوں میں ذائقہ اور غذائیت لاتے ہیں جبکہ پاؤڈر کے طور پر اسے سالن کو گاڑھا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ایک تازہ جڑی بوٹی کے طور پر، اس کے تازہ پتے پکوانوں میں خوشبودار اور منفرد ذائقہ دیتے ہیں۔
انڈین کھانوں میں اس کا استعمال اتنا رائج ہے کہ سبزی فروش خوش دلی سے تازہ دھنیا کا ایک اعزازی گچھا (نیز مٹھی بھر ہری مرچیں) گاہکوں کے تھیلوں میں رکھ دیتے ہیں۔ اس کا لگ بھگ ہر چیز میں استعمال اسے انڈین کھانوں کا ہیرو بناتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دنیا میں دوسری جگہوں پر ہرے دھنیے کے لیے ناپسندیدگی شدید ہے۔
سوشل میڈیا پر مختلف حلقے پوری تندہی سے اس کی مذمت کرتے ہیں، یہاں تک کہ ہر سال 24 فروری کو دھنیے سے نفرت کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے۔
تاہم جو لوگ اس جڑی بوٹی کی تعریف کرتے ہیں وہ اسے تازہ، خوشبودار اور کھٹی قرار دیتے ہیں۔ جو لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کا ذائقہ صابن، گندگی یا کیڑے جیسا ہے۔ اکثر یہ بتاتے ہیں کہ دھنیا کا نام یونانی لفظ ’کوریس‘ سے آیا ہے جس کا مطلب ’بیڈ بگ‘ یعنی ’کھٹمل‘ ہے اور اس کا یہ نام اس کی تیز بو کی وجہ سے رکھا گیا۔
تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ دھنیے کے لیے ناپسندیدگی ایک جینیاتی تغیر کی وجہ سے وراثت میں مل سکتی ہے، جو پوری دنیا میں اس کے لیے مختلف ردعمل کا سبب بن سکتی ہے۔
تاہم کچھ مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ بچپن میں ہی اس کے طاقتور ذائقے سے آشنائی کے نتیجے میں جنوبی ایشیائی باشندوں میں اس کے لیے نفرت کم ہوتی ہے۔
جنوبی ایشیا کے لوگوں کے لیے دھنیا محض ایک سجاوٹ سے کہیں بڑھ کر ہے۔ سوچ سمجھ کر ڈشز پر اس کی کافی مقدار ڈالنے کے بجائے جنوبی ایشیائی افراد اسے کھانا پکانے کے عمل کے مختلف حصوں میں جان بوجھ کر استعمال کرتے ہیں اور بہت سے برتنوں میں ترکاری کی تیاری کے دوران، دھنیا پاؤڈر عام طور پر ہلدی اور زیرے کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ مقدار میں اور تھوڑا سا کھٹا ذائقہ شامل کیا جا سکے۔
دھنیے کے بیجوں کو تڑکے میں شامل کیا جا سکتا ہے، جو کہ گرم تیل میں بھون کر اور ذائقے کو نکھارنے کے لیے پکوان میں شامل کیا جاتا ہے۔
تڑکے کے ذریعے گرم مسالوں کی خوشبو کھانوں میں شامل کی جاتی ہے جبکہ دھنیے کے پتے اکثر پیس کر چٹنی میں بھی ڈالے جاتے ہیں۔ دہی کے رائتے میں بھی تازہ دھنیا کو باریک کاٹا جا سکتا ہے اور کھانوں کی ظاہری خوبصورتی کے لیے بھی باریک کٹا دھنیا کھانوں پر چھڑکا جا سکتا ہے۔
اگرچہ دھنیا انڈین پکانوں میں رچا بسا ہوا ہے لیکن پھر بھی یہ اکثر باورچی خانوں میں پسند نہیں کیا جاتا۔ اس کے سستا ہونے، آسان رسائی کی وجہ سے اس کی قدر نہیں کی جاتی۔
تاہم ایک انڈین شیف رنویر برار اس رویے کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مصنف، ریستوران چلانے والے اور ماسٹر شیف انڈیا کے جج رنویر برار کا کہنا تھا کہ ’پنجابی گھرانے میں پرورش پاتے ہوئے، دھنیا ہماری خوراک کا ایک بہت اہم حصہ تھا جو ہم ایک کاشتکار خاندان کے طور پر کھاتے تھے۔ ہم دھنیے کے بیج پانی کی نالیوں کے قریب پھینک دیتے تھے اور وہ وہیں پھوٹ پڑتے تھے اور ہم کھانوں میں ڈالنے کے لیے وہیں سے کچھ توڑ لیتے۔‘
جب انھوں نے انڈین پکوانوں کے بارے میں گہرائی سے مطالعہ کیا اور انڈیا بھر میں بڑے پیمانے پر سفر کیا تو علاقائی پکوانوں میں دھنیے کے مختلف استعمال کی تعریف کیے بنا نہ رہ سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’شمال سے لے کر جنوبی انڈیا تک کئی ریاستیں اور علاقے دھنیا کا استعمال کرتے ہیں۔ چاہے وہ کچے پیسٹ یا چٹنی کے طور پر ہو، ناریل کے ساتھ استعمال کیا جائے، یا شمال مشرقی انڈیا میں پائی جانے والی قسم جو رسیلی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’دھنیا کھانوں کے ذخیرہ کا ایک اہم حصہ ہے۔ میں اسے ایک حس بڑھانے والا جزو سمجھتا ہوں کیونکہ ناک حرکت میں آتا ہے تو پوری ڈش کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔‘
اس کے باوجود، حقیقت یہ ہے کہ دھنیا کو کم ہی سراہا جاتا ہے یا رسمی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، اور یہ بات شیف رنویر برار کو پریشان کرتی ہے۔ لہٰذا، مارچ 2022 میں اسی جذبے کے اظہار کے لیے کی گئی سوشل میڈیا پوسٹ پر حاصل ہونے والی توجہ کے بعد انھوں نے چینج ڈاٹ او آر جی نامی ویب سائٹ پر ایک پٹیشن شروع کی تاکہ عاجزانہ مزاج دھنیا کو ’وہ عزت دلوائی جائے جس کا وہ حقدار ہے۔‘ وہ اسے انڈیا کی ’قومی جڑی بوٹی‘ قرار دلوانا چاہتے ہیں۔
اب تک اس پٹیشن پر تقریباً 32,000 دستخط کیے جا چکے ہیں اور 35,000 دستخط اسے اس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ دستخط حاصل کرنے والی پٹیشنز میں سے ایک بنا دیں گے۔
چینج ڈاٹ او آر جی کی مارکیٹنگ مہم کی مینیجر مادھوری جانکی زوتشی کے مطابق اس پٹیشن پر 87 فیصد دستخط انڈین افراد کی طرف کیے گئے ہیں جبکہ بقیہ میں انڈین تارکین وطن شامل ہیں اور بہت سے لوگوں نے پٹیشن کے تبصروں کے سیکشن میں اس کے لیے پسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
ان میں سے ایک تبصرے میں لکھا تھا کہ ’دھنیا کے بغیر کھانا اس شہزادی کی طرح ہے جس کے سر پر تاج نہ ہو۔ مجھے دھنیے سے محبت ہے۔‘
ایک دوسرے تبصرے میں لکھا تھا ’درحقیقت، دھنیا ہماری قومی جڑی بوٹی ہے، جس کے بغیر ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہماری ڈش مکمل ہے۔‘
یہ مسئلہ انڈیا میں فوڈ پروسیسنگ انڈسٹریز کے وزیر پشوپتی کمار پارا تک پہنچ چکا ہے جو اسے ملک کی قومی جڑی بوٹی کے طور پر سرکاری طور پر نامزد کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
زوتشی کہتے ہیں کہ اس پٹیشن کی کامیابی کا حتمی اعلان شیف برار ہی کریں گے جب ان پر دستخطوں کی تعداد مکمل ہو جائے گی۔
بہرحال پٹیشن کی حتمی کامیابی آخری مقصد کے بجائے جاری عمل کے بارے میں زیادہ ہے۔ زوتشی کا کہنا ہے کہ ’ہمارے خیال میں وہ پٹیشنیں جو کسی مسئلے پر توجہ دلاتی ہیں اپنے طریقے سے کامیاب ہوتی ہیں۔‘
مگر برار کے لیے دھنیا کو انڈیا کی قومی جڑی بوٹی قرار دلوانا صرف ایک تحریک نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ انڈیا میں ایک سوچ اور قومی بحث کا آغاز کر رہا ہے اگر اٹلی کی تلسی اور فرانس کی اوریگینوں قومی جڑی بوٹی ہو سکتی ہیں تو انڈیا کی کون سی قومی جڑی بوٹی ہے۔ ہم دھنیا جو قومی جڑی بوٹی کیوں قرار نہیں دے سکتے۔‘
درحقیقت جنوبی ایشیا میں دھنیا کا مقام کھانے کے ایک جزو سے کہیں زیادہ ہے۔ جڑی بوٹیوں کی ماہر پاکستانی ڈاکٹر بلقیس شیخ کہتی ہیں کہ ’دھنیا کو بہت عرصے سے ہمارے باروچی خانوں میں کچن ڈاکٹر کی حیثیت حاصل ہے۔‘
اگرچہ دھنیا کا استعمال صدیوں پرانا ہے اور اسے پوری دنیا میں استعمال کیا جاتا ہے، ہندوستان میں اس کا پتہ ویدوں اور سنسکرت کی تحریروں سے ملتا ہے اور طویل عرصے سے اسے دواؤں کی جڑی بوٹیوں اور خوراک کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ روایتی ادویات میں اسے تندرستی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
ڈاکٹر بلقیس شیخ نے مغرب سے برآمد کردہ وزن کم کرنے اور آنتوں کی صحت کے لیے استعمال ہونے والے جوس کا حوالے دیتے ہوئے مذاقاً کہا کہ دھنیا غریب آدمی کا پارسلے ہے۔ امیر لوگوں کے پاس پارسلے اور سپیلیمنٹس ہوتے ہیں جبکہ ہمارے پاس دھنیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اسے سونف کے ساتھ ملا کر کھانا بدہضمی کا آزمودہ علاج ہے اور اگر دھنیے کے 20-25 پتوں کو دودھ میں ابال کر پیا جائے تو یہ کمر درد اور ماہواری کے دوران تکلیف سے فوری راحت پہنچاتا ہے۔
ڈاکٹر بلقیس شیخ دھنیے کو مختلف مسائل کے علاج کے لیے بھی استعمال کرتی ہیں جیسا کہ منھ کے چھالوں کے لیے، سر میں نکلنے والے دانوں کے لیے اور انسومنیا کے لیے۔
وہ کہتی ہیں کہ اس کی تاثیر ٹھنڈی ہے اور خاص کر برصغیر کے گرم موسم میں اس کے جسم پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
حتیٰ کہ انڈین پکوانوں کے ساتھ لوازمات میں ضروری سمجھی جانے والی چیزیں جیسا کہ پودینہ، دھنیا اور ٹماٹر کی چٹنی بھی طبیعت پر ہلکا پھلکا اور تازگی کا احساس دیتی ہے اور یہاں کے درجہ حرارت میں ٹھیک رہتی ہیں جیسا سردیوں میں گرم سوپ۔
درحقیقت، دھنیا کا بہت سے دواؤں میں استعمال مختلف خطوں میں ان کے ماحول کی وجہ سے شروع ہوا ہو گا اور پھر اسے کھانے کے لیے استعمال کیا گیا ہو گا۔
جس کی شیف برار وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’مثال کے طور پر بھوپال شہر میں جھیل کا پانی ’سخت‘ ہے (جس میں تحلیل شدہ معدنیات جیسے کیلشیم اور میگنیشیم زیادہ ہوتا ہے) اور یہ یہاں آ کر آباد ہونے والوں کے لیے موافق نہیں تھا اس لیے انھوں نے بدہضمی کی علامات کو دور کرنے کے لیے دھنیا کا استعمال شروع کیا۔ شاید اس نے ہی اس خطے میں مشہور بھوپالی رزیلا ڈش جس میں دودھ اور دہی ڈالا جاتا ہے اور اس میں ڈھیر سارا دھنیا بھی ملایا جاتا ہے۔
اگرچہ یہ واضح طور پر دواؤں اور باورچی خانے دونوں جگہ استعمال میں ایک ورسٹائل جزو ہے، دھنیا کی سب سے اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ پودے کے ہر حصے کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔
آج ہم کچرا کم کرنے کے لیے ’جڑ سے پھل‘ تک کے استعمال کی بات کرتے ہیں مگر دھنیا ایسا ہی ایک جزو ہے۔
آپ اس پودے کے حصے کو جتنا نیچے یعنی پتے سے لے کر ڈنڈل اور جڑ جہاں تک نیچے سے کھانے میں استعمال کریں گے اس کی تیاری میں اتنا ہی وقت زیادہ لگے گا مثال کے طور پر لکھنؤ کی نہاری میں اس کی جڑ کا استعمال۔ نہاری گوشت اور شوربے کا پکوان ہے جس میں گوشت کے ٹکروں کو دھنیا، لونگ، دار چینی اور زیرا لگا کر گھنٹوں ہلکی آنچ پر پکایا جاتا ہے اور اس کے بعد آخر میں اس میں ذائقے اور خوشبو کے لیے اس کے پتوں کو شوربے پر چھڑکا جاتا ہے۔
شیف برار کہتے ہیں کہ ’کھانوں میں دھنیا کے پتے کسی بھی پرفیوم کی طرح کام کرتے ہیں، یہ کھانے کو مہکاتے ہیں مگر اس کی ڈنڈل میں کافی دیر تک خوشبو رہتی ہے۔‘
پکوانوں کی کتاب کی مصنفہ سائرہ ہملٹن کو دھنیے کے نیچے حصے کو کھانے میں استعمال کرنا زیادہ پسند ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کی ڈنڈل اور جڑ شاید سب سے اچھا حصہ ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اکثر مغربی شیفس سے بات کے دوران یہ کہا جاتا ہے کہ اگر دھنیا کے ڈنڈل کو کچا چبایا جائے تو اس سے ایک تیکھا رسیلا ذائقہ آتا ہے جو مجھے بہت پسند ہے اور نمک، لال مرچ اور دھنیا کی پسی ہوئی چٹنی کسی اور چٹنی کے ذائقے سے بہتر ہے۔‘
مچلن سٹار ایوارڈ یافتہ پہلی انڈین خاتون شیف گاریما اروڑا، جن کے تھائی لینڈ میں ’گا‘ اور ’ہیر‘ نامی دو ریستوران بھی ہیں، کہتی ہیں کہ کسی بھی شیف کے لیے دھنیے کا استعمال ایک دانستہ عمل ہوتا ہے کیونکہ وہ کسی بھی پکوان میں اس کو استعمال کرتے ہوئے اس میں تازگی کے احساس کو دعوت دیتا ہے۔
اروڑا، پورک بیلی یعنی خنزیر کے پیٹ کے قتلے بناتے ہوئے انار، پیاز اور دھنیا استعمال کرتی ہیں جس میں دھنیے کی ڈنڈیوں کو دھنیے کے پتوں کے تیل میں پراسس کیا جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف ایک اچھا رنگ آتا ہے بلکہ ایک بہت منفرد ’ہرا‘ ذائقہ بھی۔
’انار سے مٹھاس، پیاز اور لیموں سے تیزابیت اور دھنیے سے ہرا رنگ اور ہرے جوس کا ایک تازہ ذائقہ حاصل ہوتا ہے۔‘
اروڑا سمجھتی ہیں کہ ویسے تو دھنیے کو انڈین کھانوں سے نسبت دینا بہت عام ہے اور اُنھیں آج تک کوئی ایسا انڈین نہیں ملا جسے یہ کھانوں میں نہ پسند ہو مگر پھر بھی ان کے نزدیک اسے انڈیا کی قومی جڑی بوٹی قرار دینے کا مطلب دنیا کے دیگر خطوں کے کھانوں میں اس کے کردار سے صرفِ نظر کرنا ہے۔
اور انڈیا جہاں پر طرح طرح کے پکوان پائے جاتے ہیں وہاں ’قومی جڑی بوٹی‘ کے لیے کئی امیدوار ہو سکتے ہیں اور رنویر برار کو اس سے مسئلہ نہیں ہوتا۔
ان کے لیے سوال یہ کبھی نہیں رہا کہ ’دھنیا کیوں اور فلاں بوٹی کیوں نہیں‘ بلکہ ہمیشہ یہ کہ ’دھنیا کیوں نہیں؟‘
وہ کہتے ہیں کہ دھنیا ’ڈش کو اچھی طرح پیش کرنے‘ کے لیے بھی اہم ہے۔ ’یہ غذائیت اور نفاست‘ کے درمیان فرق ہے۔ یہ وہ فرق ہے جو بھوک مٹانے والے کھانے اور بھوک لگا دینے والے کھانے کے درمیان ہے۔‘
لگتا ہے کہ برار چاہتے ہیں کہ دھنیے کو قومی بوٹی قرار دینے کے بجائے انڈین پکوان میں اس کے کردار کو تسلیم کیا جائے۔