زندگی کے پہلے دو ہزار دن، یعنی پانچ سال کی عمر تک کا عرصہ، کسی بھی بچے کی جسمانی نشونما اور صحت کے لیے نہایت اہم سمجھے جاتے ہیں۔
مختلف تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ اس عرصے میں بچہ جن تجربات سے گزرتا ہے ان کا اثر برسوں تک رہتا ہے۔
بی بی سی نیوز برازیل نے جن ماہرین سے بات کی ان سب سے خاص طور پر اس دورانیے میں بچے کی غذا کی اہمیت پر زور دیا۔
مونیکا موریٹزہسن جو برازیلین سوسائٹی آف پیڈیاٹرکس کی رکن ہیں، کہتی ہیں کہ زندگی کے پہلے چند برسوں میں ہر ایک سیکنڈ میں لاکھوں نئے اعصابی کنکشن بن رہے ہوتے ہیں اور صحت مند خوارک اس کے لیے نہایت ضروری ہوتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بچے کی جسمانی نشونما اور وزن کے لیے بھی اچھی خوراک اہم ہوتی ہے۔
طبی ماہرین اور ماہرین خوارک سے انٹرویوز کی بنیاد پر ہم آپ کو بتا سکتے ہیں کہ بچے کو روزانہ کی بنیاد پر کیا کھلانا چاہیے۔
ماں کا دودھ
ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ چھ ماہ کی عمر تک بچے کو ماں کا دودھ پلانا چاہیے۔
البرٹ آئنسٹائن ہسپتال کے ماہر امراض بچگان ہوزے نیلیو کاویناٹو کے مطابق ’پانی یا کچھ اور نہیں، ماں کا دودھ ہی بچے کے لیے کافی ہوتا ہے۔‘
صحت مند پلیٹ سکیم کے تحت دن کے دو اہم کھانوں، دوپہر اور رات کے کھانے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے جو صرف بچے کے لیے ہی نہیں بلکہ زندگی بھر کے لیے کام آ سکتی ہے۔
برازیل میں یونیسیف کی ہیلتھ افسر سٹیفنی امرال بھی اس سے اتفاق کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ والدین کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ بچے کو کھانے میں جو بھی دیا جا رہا ہے، وہ کہاں سے آ رہا ہے۔
یہ ضروری ہے کہ پروسیسڈ اور اندسٹریل کھانوں سے پاک صحت مند خوراک دی جائے جس میں میٹھے اور دیگر کیمیائی اجزا کی کم سے کم مقدار شامل ہو۔
سبزیاں
بچوں اور بڑوں کی خوارک میں جس چیز کا شامل ہونا نہایت اہم ہے وہ سبزیاں ہیں جس کو پلیٹ کا کم از کم 50 فیصد ہونا چاہیے۔
ایس بی پی کے مطابق ایک سے دو سال کی عمر تک کے بچوں کو دن میں دو بار جب کہ دو سے پانچ سال کی عمر کے بچوں کو روزانہ تین بار سبزی دینی چاہیے۔
ہوزے نیلیو کاویناٹو کا کہنا ہے کہ سبزیوں میں پتوں والی سبزیاں فائبر، وٹامن کے ساتھ ساتھ فولک ایسڈ اور آئرن جیسے معدنیات کا بہتر ذریعہ ہوتی ہیں۔ آئرن بچے کی دماغی نشونما کے لیے نہایت اہم ہے۔
اس کی کمی دنیا بھر میں عام ہے جس کی ایک شکل آئرن کی خون میں کمی بھی ہے اور اس میں بچے کی حسی اور حرکاتی نشونما متاثر ہوتی ہے۔
فولک ایسڈ اعصابی نظام کے لیے اہم ہے اور اس کی کمی بسا اوقات ایسی تبدیلیوں کی شکل میں نمایاں ہوتی ہیں جن کا علاج ناممکن ہوتا ہے۔
فائبر کی کمی بھی کئی بیماریوں کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے جن میں قبض، الرجیز اور قوت مدافعت میں کمی شامل ہیں۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ ایسے بچے جن کو روزانہ وٹامن سی کی مطلوبہ مقدار نہیں مل پاتی، وہ جلد کی بیماریوں، خون میں آئرن کی کمی، دانتوں کا گرنا، کمزور ہڈیوں اور زخموں کا دیر سے ٹھیک ہونا جیسی کیفیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ہوزے نیلیو کاویناٹو کا کہنا ہے کہ وٹامن اے کی کمی کی وجہ سے پانچ سال سے کم عمر بچوں میں کمزور نظر یا اندھے پن کی کیفیت ظاہر ہو سکتی ہے۔
سبزیوں میں گاجر اور کدو وٹامن اے فراہم کرنے کا اچھا ذریعہ ہیں جب کہ بینگن کیلشیئم، میگنیشیئم، پوٹاشیئم اور وٹامن بی فائیو جیسے اہم اجزا سے بھرپور ہے۔ بروکولی وٹامن کے، وٹامن سی اور وٹامن اے کے علاوہ پوٹاشیئم فراہم کرتی ہے۔
سیریل
چاول، گندم، میدہ، روٹی، آلو، جو، مکئی کا گروپ ایسی خوراک کا حامل ہے جس کو بچے کے کھانے کی پلیٹ کا 25 فیصد ہونا چاہیے۔
ہوزے نیلیو کاویناٹو کا کہنا ہے کہ یہ گروپ کاربوہائیڈریٹس اور وٹامن کے ساتھ ساتھ چربی کا بھی صحت مند ذریعہ ہے جن سے جسم کو توانائی ملتی ہے۔
کاربوہائیڈریٹس کی کمی برے موڈ کی شکل میں نظر آتی ہے۔ لیکن دوسری جانب ان کی مقدار کا زیادہ ہونا موٹاپا، ذیابطیس اور دل کی بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کو دی جانے والی خوارک میں 50 سے 60 فیصد کیلریز کاربو ہائیڈریٹس پر مشتمل ہونی چاہیں۔
گوشت اور انڈے
بچے کے دن میں دو اہم کھانوں میں گوشت یا انڈے ضرور شامل ہوں اور یہ پلیٹ کا آٹھواں حصہ ہونا چاہیے۔
ایس بی پی کے مطابق ایک سے تین سال کی عمر کے بچے دن میں کم از کم دو سرونگ گوشت یا انڈے کھائیں اور چار سے پانچ سال کے بچوں کے لیے اس کی تجویز کردہ مقدار دن میں ایک سرونگ کی ہے۔
بی بی سی نیوز برازیل نے جن ماہرین سے بات کی ان کا کہنا تھا کہ گوشت چاہے مرغی کا ہو یا گائے کا یا مچھلی کا بھی ہو سکتا ہے۔
ان کے مطابق یہ آئرن فراہم کرنے کا اہم ذریعہ ہوتا ہے۔ جانوروں کا پروٹین وٹامن بی 12 بھی فراہم کرتا ہے جو بچوں کے جسم کے مدافعتی نظام کے لیے نہایت اہم ہوتا ہے۔ اس کی کمی بچے کی جسمانی نشونما پر اثرات چھوڑ سکتی ہے۔
ہوزے نیلیو کاویناٹو کا کہنا ہے کہ مچھلی کا گوشت ڈی ایچ اے یا اومیگا 3 فیٹی ایسڈ فراہم کرتا ہے جو اعصابی نظام کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔ انسانی اعصابی نظام کے علاوہ یہ ایسڈ آنکھ کے پردے کی نشونما میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے اور موٹاپے اور بلڈ پریشر جیسی بیماریوں سے بچاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انڈے میں بھی پروٹین کافی مقدار میں ہوتا ہے لیکن اس کو پروٹین کے واحد ذریعے کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
دالیں
بچے کے کھانے کی پلیٹ کا بقیہ حصہ دالوں سے مکمل ہوتا ہے جو ماہرین کے مطابق پلیٹ کا آٹھواں حصہ ہونا چاہیے۔
اس گروپ میں لوبیا، دالیں، چنے اور سویا بین شامل ہیں جن میں وٹامن اور آئرن، زنک، میگنیشیئم جیسے اہم معدنیات ہوتے ہیں۔
میگنیشیئم کی کمی تھکاوٹ کی علامت میں ظاہر ہوتی ہے جب کہ زنک کی کمی کی وجہ سے بھوک میں کمی، سونگھنے اور چکھنےکی صلاحیت میں کمی اور قوت مدافعت میں کمی ہو سکتی ہے۔
ویجیٹیبل آئل
بچے کے کھانے کی تیاری میں ویجیٹیبل آئل ضرور استعمال کرنا چاہیے۔ عام استعمال ہونے والے تیل میں زیتون کا تیل کنولا آئل، سورج مکھی، مکئی کا تیل، ناریل کا تیل شامل ہیں۔
ایس بی پی کے ماہرین کے مطابق ہر سبزی کے تیل میں مختلف نوعیت کے اجزا ہوتے ہیں۔
ان کے مطابق زیتون کے تیل میں اومیگا تھری، جب کہ سویا بین، کنولا، سورج مکھی تیل میں بھی اومیگا تھری ہوتا ہے۔
پھل
پھل بھی بچوں کے لیے ضروری ہیں جو کھانے کے بعد میٹھے کے طور پر کھانے چاہیں۔ ایک سے پانچ سال کی عمر تک بچے کو روزانہ پھل کی تین سرونگز دینی چاہیے۔
بچوں کو پھلوں کا جوس بھی دیا جا سکتا ہے لیکن ماہرین غزائیت کے مطابق یہ پانی یا پھل کا متبادل نہیں ہوتا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کو مقامی موسم کے حساب سے پھل دیا جائے جس میں فائبر کی موجودگی کا خیال رکھا جائے۔
ہوزے نیلیو کاویناٹو کا کہنا ہے کہ پھل اکثر وٹامن سی کا واحد ذریعہ ہوتے ہیں اور ان سے فائبر بھی حاصل ہوتا ہے۔
دودھ کی بنی ہوئی اشیا
ایک سال کی عمر کے بعد بچے کو دودھ سے بنی اشیا بھی دی جا سکتی ہیں جو پانچ سال کی عمر تک روزانہ کی بنیاد پر تین سرونگ کے طور پر دیا جانا چاہیے۔
دودھ، پنیر اور دہی کیلشیئم فراہم کرتے ہیں جو ہڈیوں اور پٹھوں کی نشونما کے لیے ضروری ہیں۔
کیلشیئم کی کمی کی وجہ سے دانتوں میں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اور اگر اس کا علاج نہ ہو، تو نقصان مستقل بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
ایسے خاندان جو معاشی مشکلات کی وجہ سے روزانہ دودھ کی بنی ہوئی اشیا بچے کو نہیں دے سکتے، ان کے لیے ایسی غذائیں تجویز کی جاتی ہیں جن میں کیلشیئم موجود ہو جیسا کہ سیریل، سویا دودھ یا دالیں۔ پالک بھی کیلشیئم فراہم کرنے کا سستا ذریعہ ہے۔
ہوزے نیلیو کاویناٹو کا کہنا ہے کہ ایک سال کی عمر سے پہلے بچے کو گائے کا دودھ پلانے سے گریز کرنا چاہیے۔ ان کے مطابق گائے کے دودھ میں ماں کے دودھ کی نسبت تین گنا زیادہ پروٹین ہوتی ہے جو موٹاپے کی وجہ بن سکتا ہے۔