تحریریں

نیند نہیں آتی؟ وہ ایپس جو آپ کی مدد کر سکتی ہیں

کیا آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا کہ رات کو بستر پر لیٹے ہوئے آپ کے دماغ میں خیالات کا انبار ہو اور نیند کا دور دور تک کوئی نشان نہ ہو؟

اگر ایسا ہے تو پھر شاید آپ انگلینڈ کے علاقے ڈربی شائر سے تعلق رکھنے والی لیزا ہالینڈ کی حالت زار سمجھ سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے سونا چھوڑ دیا‘۔

ان کی حالت اس حد تک ہو گئی تھی کہ وہ ہر رات صرف چند گھنٹوں تک سو پاتیں۔

سنہ 2016 میں لیزا ہالینڈ نے 90 منٹ کی موٹروے ڈرائیو نیند کے بغیر شروع کی۔ نیند کی کمی کے شکار کسی فرد کے لیے یہ ممکنہ طور پر ایک خطرناک سفر تھا۔

لیزا کا کہنا ہے کہ ’میں صرف اپنے سونے کے کمرے میں گھوم رہی تھی۔ میں نے خود کو آئینے میں دیکھا تو میں ایک زومبی کی طرح لگ رہی تھی، میں چکر کاٹ رہی تھی اور میں نے سوچا۔۔۔ تم کیا کر رہی ہو؟ یہ مضحکہ خیز ہے۔‘

انشورنس گروپ ڈائریکٹ لائن کی گذشتہ سال کی ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ میں تقریباً تین چوتھائی لوگ (71 فیصد) فی رات 7-9 گھنٹے کی تجویز کردہ نیند نہیں لیتے۔ اس کے مطابق سات میں سے ایک فرد کو پانچ گھنٹے سے بھی کم وقت کی نیند مل رہی ہے۔

کیا نیند آنے میں مدد کے لیے تیار کردہ ایپس اور دیگر ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا استعمال اس مسئلے کا حل ہو سکتا ہے؟ ہم میں سے بہت سے لوگ ایسا ہی سوچتے ہیں۔

مجموعی طور پر گلوبل سلیپ ٹیکنالوجی کے شعبے کی مالیت گذشتہ سال 15 ارب ڈالر تھی۔ اسی رپورٹ میں پیشگوئی کی گئی کہ یہ 2030 تک 67 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔

نیند کے مسائل مختلف عوامل کی وجہ سے ہو سکتے ہیں، بشمول تناؤ، شفٹ ورک اور کیفین یا الکوحل کا استعمال۔ اگر آپ بے خوابی کا شکار ہیں، تو ہو سکتا ہے کہ آپ اسے تھکاوٹ یا شاید بدمزاجی سمجھ رہے ہوں لیکن طویل نیند نہ آنے کے نتائج بہت زیادہ سنگین ہو سکتے ہیں۔

برطانیہ ہیلتھ سکیورٹی ایجنسی کے مطابق نیند کی کمی ہائی بلڈ پریشر، دل کی بیماری، ذیابیطس اور یہاں تک کہ دماغی صحت کے مسائل میں بھی کردار ادا کرتی ہے اور اس کے اثرات معیشت پر پڑتے ہیں۔

ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیند کی کمی کی وجہ سے برطانیہ کو پیداواری صلاحیت میں سالانہ 40 ارب پاؤنڈ تک کا نقصان ہوتا ہے لیکن یقیناً یہ صرف ایک برطانوی مسئلہ نہیں۔

امریکہ کے بیماریوں سے روک تھام کے ادارے کے مطابق ایک تہائی امریکی شہریوں کو مناسب نیند نہیں آتی اور اس صورتحال سے پوری قوم کی صحت کو خطرہ ہے

لیزا اب اکثر رات کو وہ اپنے فون پر ایپ کھولتی ہیں، سونے کے وقت کی کہانی منتخب کرتی ہیں اور اسے سپیکر پر چلا دیتی ہیں

لیکن یہ سب لیزا کے ذہن میں نہیں تھا جب انھیں اپنے مسئلے کا سامنا لرنا پڑا۔ وہ صرف اتنا جانتی تھیں کہ انھیں مدد کی ضرورت ہے۔

ان کے ڈاکٹر نے ابتدائی طور پر نیند کی گولیوں کا ایک مختصر کورس تجویز کیا، جو انھیں چند گھنٹوں کے لیے سلا دیتیں لیکن اس سے انھیں معیاری آرام نہیں ملتا تھا۔

آخر کار انھوں نے نیند کی کہانیوں کا رجحان دریافت کیا، جو ایپس اور پوڈ کاسٹ کے ذریعے فراہم کی جانے والی سکون بخش کہانیاں ہیں۔ انھوں نے مراقبہ ایپ اور ویب سائٹ calm سے ان کا انتخاب کیا۔

وہ کہتی ہیں ’میں اب بہت بہتر طریقے سے سوتی ہوں۔ یہاں تک کہ اگر کام بہت بھی ہو تو بھی میں مختلف چیزوں کے بارے میں سوچ رہی ہوتی ہوں، جیسے مجھے کل کیا کرنا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں ’مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک آرام دہ کمبل کی طرح ہے۔‘

اب اکثر رات کو وہ اپنے فون پر ایپ کھولتی ہیں، سونے کے وقت کی کہانی منتخب کرتی ہیں اور اسے سپیکر پر چلا دیتی ہیں۔

ہم میں سے زیادہ سے زیادہ لوگ جو سونے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں وہ مدد کے لیے ٹیکنالوجی کی طرف رجوع کر رہے ہیں اور یہ صرف سونے کے وقت آرام دہ کہانیاں ہی نہیں۔

نیند کی ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی مارکیٹ میں ہماری نیند کے نمونوں کو ٹریک کرنے کے لیے آلات، ایپس اور اس کے ساتھ ساتھ نیند کی کمی یا نشہ آور بیماری جیسے طبی عارضوں سے نمٹنے کے لیے خدمات شامل ہیں۔

اس طرح کی ٹیکنالوجی اب صحت کی ایجنسیوں کی جانب سے بھی تجویز کی جارہی ہے۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ اینڈ کیئر انگلینڈ نے پچھلے سال سفارش کی تھی کہ بے خوابی کے شکار افراد ’سلیپیو‘ نامی ایپ آزمائیں۔

سلیپیو کا ایک ورچوئل سلیپ اسسٹنٹ ہے جسے’دی پروف‘ (The Prof) کہا جاتا ہے۔ یہ مصنوعی ذہانت سے چلنے والا سافٹ ویئر ہے جس کا مقصد صارفین کو آسانی سے سونے میں مدد کرنا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’دنیا کی بہترین خواہش کے ساتھ، صبح چار بجے اٹھ کر ورزش کرنا اور پھر اپنے دن کا آغاز کرنا اور سب سے پہلے دفتر جانا اور سب سے آخر تک کام کرتے رہنا اب میرے لیے کام نہیں کرے گا۔‘

’مجھے لگتا ہے کہ زیادہ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ آپ کو دن میں 17-18 گھنٹے کام کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں زندگی کے کام کے توازن کی ضرورت ہے اور اس کا ایک حصہ واقعی اچھی نیند لینا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں