ہالی ووڈ فلم ’باربی‘ کو 21 جولائی کو جہاں پاکستان کے مختلف شہروں میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا ہے وہیں صوبہ پنجاب میں اس کی نمائش پر ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا جس کے بعد گذشتہ روز کچھ دیر کے لیے اس کی نمائش میں تعطل کے بعد اب اسے سنیما گھروں میں پیش کیا جا رہا ہے۔
فلم کی نمائش کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر یہ خبر گردش کرنے لگی تھی کہ باربی میں موجود ’ہم جنس پرستی سے متعلق مواد‘ کے باعث اس کی نمائش روک دی گئی ہے۔
دوسری جانب کراچی اور اسلام آباد کے سینما گھروں میں اس فلم کی نمائش کا سلسلہ جاری رہا اور فلم کی پسندیدگی کے حوالے سے شائقین نے اپنی رائے بھی ٹوئٹر پر دینا شروع کر دی۔
وارنز برادرز کی پیش کردہ اس اینی میٹڈ فلم میں ہالی ووڈ سٹار مارگٹ روبی نے باربی کا کردار ادا کیا ہے۔ فلم کی کاسٹ میں رائن گوسلنگ اور دعا لپا سمیت دیگر نامور فنکار شامل ہیں۔
باربی فلم کی پنجاب میں پابندی کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے نگران وزیر اطلاعات عامر میر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’باربی فلم پر پابندی نہیں لگائی گئی بلکہ فلم میں پیش کیے گئے مواد کے باعث یہ ’ریویو‘ میں چلی گئی ہے۔‘ (یعنی اب سینسر بورڈ اس کا ایک بار پھر جائزہ لے گا۔)
عامر میر کے مطابق آئندہ ہفتے سینسر بورڈ کمیٹی بنائے گا جس میں اس کا جائزہ لیا جائے گا۔ تاہم اس دوران یہ فلم لاہور اور سرگودھا سمیت پنجاب کے دیگر شہروں میں نمائش کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔
جب عامر میر سے پوچھا گیا کہ باقی صوبوں میں وہی مواد نمائش کے لیے سنیما گھروں کی زینت بنا ہوا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم جنس پرست مواد چلانے میں اگر انھیں (دوسرے صوبوں کو) کوئی اعتراض نہیں تو وہ چلا سکتے ہیں لیکن اس کو ہم نہیں چلائیں گے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ متنازعہ مواد کیا تھا جس کے باعث اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ ’گوگل پر سرچ کر لیں۔‘
یاد رہے کہ اس سے قبل بھی پنجاب میں خواجہ سرا کے کردار پر بنائی جانے والی فلم جوائے لینڈ پر پابندی کا فیصلہ سامنے آ چکا ہے۔
گذشتہ سال پاکستان میں صوبہ پنجاب کی حکومت نے آسکر ایوارڈ کے لیے سرکاری طور پر نامزد کی گئی فلم جوائے لینڈ کی صوبے میں ریلیز پر پابندی عائد کر دی تھی۔
پاکستان میں صوبائی فلم سینسر بورڈز کی منظوری کے بعد ہی کوئی فلم سنیما گھروں میں ریلیز ہوتی ہے۔
سینسر بورڈز ’سماجی اور ثقافتی اقدار کے خلاف‘ سمجھی جانے والی کسی بھی فلم کو ریویو کرنے، یا اس پر پابندی عائد کرنے سے متعلق فیصلے کا اختیار رکھتے ہیں۔
تو پھر اس فلم میں ایسا کیا متنازع ہے؟ اس بارے میں ہم نے وزیرِ اطلاعات پنجاب کی تجویز پر اس فلم پر تجزیے بھی پڑھے اور گذشتہ روز یہ فلم دیکھنے والے کچھ افراد سے اس بارے میں بات بھی کی ہے۔
’اس فلم میں ایسا کچھ بھی دیکھنے یا سننے کو نہیں ملا جسے قابل اعتراض قرار دیا جائے‘
باربی ڈول کے نام سے کون واقف نہیں۔ ہم میں سے اکثر نے یا تو پنک کلر کی دبلی پتلی اس گڑیا سے اپنے بچپن میں کھیلا ہے اور جو خود نہیں کھیل سکے انھوں نے اپنے بچوں کے لیے باربی ڈول اور اس کے استعمال کے مختلف سامان کی خریداری ضرور کی ہو گی۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستانی شائقین کو بھی ہالی وڈ کی اینیمیٹڈ فلم باربی کی نمائش کا انتظار تھا اور اس کی ریلیز نے بہت سوں کے بچپن کی خوبصورت یادیں بھی تازہ کیں۔
لاہور میں موجود حارث ملہی نے گذشتہ شب یہ فلم سینیما چینز ’یونیورسل سنیما‘ میں دیکھی۔ ان کے مطابق دن تین بجے تک سنیما گھر کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ بارہا کوشش کے باوجود یہ فلم نمائش کے لیے پیش نہیں کی جا رہی تاہم پھر شام میں کچھ شوز اوپن ہوئے اور ہم یہ فلم دیکھنے گئے
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حارث نے بتایا کہ اس فلم میں ان کو ایسا کچھ بھی دیکھنے یا سننے کو نہیں ملا جسے ’قابل اعتراض‘ قرار دیا جائے۔
حارث کے مطابق ’فلم کے کئی مناظر نے انھیں کھل کر ہنسنے کا موقع فراہم کیا لیکن ایسا کوئی سین نہیں تھا جس میں ہم جنس پرستی کو فروغ دیے جانے کی بات کی گئی ہو۔‘
اس بارے میں سوشل میڈیا پر بھی اکثر افراد کی جانب سے یہ بھی یہی رائے سامنے آئی ہے۔ کچھ صارفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر جہاں کوئی معترضہ جملہ ہو سکتا تھا وہاں فلم کے دوران ’بیپ‘ کی آواز موجود تھی۔‘ تاہم اس بات کے حوالے سے تاحال وثوق سے نہیں کہا جا سکتا ہے کہ آیا فلم کو سینسر کیا گیا ہے یا نہیں۔
تاہم جہاں لاہور میں یہ فلم گذشتہ شام سے سنیما گھروں میں دکھائی جانے لگی تھی وہیں سرگودھا میں ایک سنیما گھر میں جمعے کو اس کی نمائش نہیں کی گئی تھی تاہم آج (سنیچر کو) یہاں باربی پیش کی جا رہی ہے۔
لاہور کے علاوہ پنجاب کے دیگر سنیما گھروں کی ویب سائٹس پر یہ فلم بکنگ کے لیے دستیاب ہے۔
اس بارے میں جب ہم نے دنیا بھر میں مختلف فلم ریویوز کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا باربی کی تشہیر اس انداز میں کی گئی تھی کہ ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹیز کے افراد بھی یہ فلم دیکھنے کے لیے آئیں۔
امریکہ میں چند قدامت پسند گروپس کی جانب سے اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا اور دائیں بازو کے چینل فاکس نیوز نے تو اس فلم کی تشہیر کے دوران انتباہ جاری کرنا شروع کر دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اس فلم نے خاندانی اقدار اور نو عمر لڑکیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایل جی بی ٹی کیو کہانیوں پر توجہ دی ہے۔
اسی طرح اکثر فلم ریویوز میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ فلم کی تشہیر کے برعکس اس میں ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی سے متعلق مواد اور اس تناظر میں واضح ڈائیلاگ نہیں دکھائی دیے۔
باربی لینڈ سے حقیقی دنیا تک کا سفر کرنے والی باربی
فلم کے بنیادی پلاٹ کے مطابق باربی لینڈ میں سب سے زیادہ مقبول ’باربی‘ کو چند مشکلات کا سامنا کرنے پر انسانی دنیا کا سفر کرنا پڑتا ہے اور یہ سفر وہ اپنے دوست کین کے ساتھ کرتی ہیں جو انتہائی خوبرو اور پرکشش ہیں۔
انسانی دنیا کے سفر کے دوران دونوں نئی حقیقتوں کو دریافت کرتے ہیں اور اس دوران نئے دوست بناتے ہیں۔ اس دوران باربی کو اپنے غیر حقیقی روپ کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
باربی میں مزاح اور تفریح کے ساتھ کئی منظر پیش کئے گئے ہیں جس میں جذبات کی رو میں بہہ کر فلم بین رونے کی کیفیت میں بھی خود کو پا سکتے ہیں۔
فلم ناقدین کے مطابق اس فلم میں ملبوسات کی ڈیزائنننگ، پروڈکشن اور بہترین سنیمیٹوگرافی کی بدولت دیکھنے والے کو خوابوں کی دنیا سامنے دکھائی دیتی ہے۔
واضح رہے کہ بچوں میں انتہائی مقبول باربی ڈولز کو پہلی بار 1959 میں نیو یارک کے کھلونے کے میلے میں پیش کیا گیا تھا۔
اس گڑیا کا نام اس کے تخلیق کار روتھ ہینڈلر کی بیٹی باربرا کے نام پر رکھا گیا تھا۔
روتھ ہینڈلر اپنی بیٹی کو گڑیا اور دیگر کھلونوں کے ساتھ کھیلتا دیکھتے تھے اور ان کو خیال آیا تھا کہ امریکہ میں ایک ایسی گڑیا کی کمی ہے جو نوجوان لڑکی کی نمائندگی کر سکے۔
زوہیر نامی صارف نے فلم کو پسند کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس فلم میں ایسا کچھ نہیں جس پر پابندی لگائی جائے۔
انھوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ہے ’میں نے کل فلم باربی دیکھی ہے۔ اس فلم میں ایسا کچھ نہیں کہ اس پر پابندی لگائی جائے۔ نہ قابل اعتراض الفاظ ہیں نہ عریانیت اور فحاشی موجود ہے۔‘
زوہیر کے مطابق ’یہاں تک کہ فلم میں ہم جنس پرستی سے متعلق کوئی مواد بھی نہیں۔ فلم میں بتایا گیا ہے کہ خواتین جو چاہیں وہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ فلم مرد مخالف ہے۔‘
کئی صارفین نے اس فلم کے حوالے سے اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار بھی کیا ہے۔
مریم نامی صارف نے سینما میں آنے والی خواتین کے بارے میں خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’جو چیز مجھے سب سے اچھی لگی وہ یہ تھی کہ فلم کو دیکھنے آنے والی خواتین نے پنک شلوار قمیض اور (کانوں میں) جھمکے پہنے تھے۔ جی ہاں دیسی باربیز۔‘
ندا مختار نامی صارف نے باربی فلم کو تفریح سے بھرپور فلم قرار دیا اور ساتھ ہی پنجاب سینسر بورڈ پر بھی تنقید کی۔
’باربی فن اور مزاح سے بھرپور فلم ہے جسے ضرور دیکھنا چاہیے۔ پنجاب سنسر بورڈ اس فلم پر پابندی کیوں لگا رہا ہے؟ اس فلم میں قابل اعتراض مواد ڈھونڈنے کے لیے آپ کو ایک شدید ذہنی جمناسٹک سے گزرنا ہوگا۔‘
بعض صارفین نے باربی پر پابندی کے فیصلے کی متضاد اطلاعات کی حمایت بھی کی۔